Maktaba Wahhabi

153 - 354
دی جا رہی ہوتی ہے، وہ مردہ ہوتا ہے اور مردہ کسی چیز کا مالک نہیں بن سکتا۔ تیسری وجہ یہ کہ نذرونیاز دینے والا اللہ کو چھوڑ کر یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ یہ ولی امور میں تصرف کر سکتا ہے، اس کا یہ اعتقاد کفر ہے۔‘‘ (ردّ المحتار المعروف بہ الفتاوی الشامي : 2/439) علامہ قاسم بن قطلوبغا رحمہ اللہ (879ھ)لکھتے ہیں : مَا یُؤْخَذُ مِنَ الدَّرَاہِمِ وَالشَّمْعِ وَالزَّیْتِ وَغَیْرِہَا، وَیُنْتَقَلُ إِلٰی ضَرَائِحِ الْـأَوْلِیَائِ تَقَرُّبًا إِلَیْہِمْ، مُحَرَّمٌ بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِینَ ۔ ’’جو رقوم،شمعیں اور تیل وغیرہ اولیا کی قبروں پر ان کے تقرب کے لیے لائی جاتی ہیں ،ان کے حرام ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔‘‘ (البحر الرّائق لابن نجیم : 2/298، الفتاوی الہندیّۃ المعروف بہ فتاوی عالمگیری : 1/216، حاشیۃ الطّحطاوي، ص 378) فتاوی عالمگیری میں لکھا ہے : اَلنَّذْرُ الَّذِي یَقَعُ مِنْ أَکْثَرِ الْعَوَامِّ بِأَنْ یَّأْتِيَ إِلٰی قَبْرِ بَعْضِ الصُّلَحَائِ، وَیَرْفَعَ سِتْرَہٗ قَائِلًا : یَا سَیِّدِي فُلَانٌ! إِنْ قَضَیْتَ حَاجَتِي فَلَکَ مِنِّي مِنَ الذَّہَبِ مَثَلًا کَذَا، بَاطِلٌ إجْمَاعًا ۔ ’’اکثر عوام جو اس طرح نذر مانتے ہیں کہ کسی نیک شخص کی قبر پر آ کر یوں فریاد کرتے ہیں : اے میرے فلاں پیر! اگر تومیری یہ ضرورت پوری کر دے، تو میری طرف سے اتنا سونا تیری نذر۔ یہ بالاجماع باطل ہے۔‘‘ (فتاویٰ عالمگیری : 1/216)
Flag Counter