’’ معلوم ہونا چاہیے کہ اکثر عوام جو مردوں کے نام کی نذونیاز دیتے ہیں اور جو رقوم، چراغ اور تیل وغیرہ اولیائے کرام کی قبروں پر تقرب کی نیت سے لائے جاتے ہیں ،وہ بالاجماع باطل اور حرام ہیں ۔‘‘ (الدرّ المختار، ص 155، ردّ المحتار : 2/439) علامہ ابن عابدین شامی حنفی رحمہ اللہ (1252ھ)اس عبارت کی تشریح میں لکھتے ہیں : کَأَنْ یَّقُولَ : یَا سَیِّدِي فُلَانُ! إِنْ رُّدَّ غَائِبِي أَوْ عُوفِيَ مَرِیضِي أَوْ قُضِیَتْ حَاجَتِي، فَلَکَ مِنَ الذَّہَبِ أَوِ الْفِضَّۃِ أَوْ مِنَ الطَّعَامِ أَوِ الشَّمْعِ أَوِ الزَّیْتِ کَذَا، (قَوْلُہٗ : بَاطِلٌ وَّحَرَامٌ) لِوُجُوہٍ : مِنْہَا أَنَّہٗ نَذَرَ لِمَخْلُوقٍ، وَالنَّذْرُ لِلْمَخْلُوقِ لَا یَجُوزُ، لِأَنَّہٗ عِبَادَۃٌ، وَالْعِبَادَۃُ لَا تَکُونُ لِمَخْلُوقٍ، وَمِنْہَا أَنَّ الْمَنْذُورَ لَہٗ مَیِّتٌ، وَالْمَیِّتُ لَا یَمْلِکُ، وَمِنْہُ أَنَّہٗ ْ ظَنَّ أَنَّ الْمَیِّتَ یَتَصَرَّفُ فِي الْـأُمُورِ دُونَ اللّٰہِ تَعَالٰی، وَاعْتِقَادُہٗ ذٰلِکَ کُفْرٌ ۔ ’’اولیا کے لیے نذرونیاز کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کوئی کہے : اے میرے فلاں پیر! اگر میرا غائب رشتہ دار واپس آ گیا، میرا مریض شفایاب ہو گیا یا میرا کام ہو گیا، تو اتنا سونا، اتنی چاندی، اتنا کھانا، چراغ یا اتنا تیل آپ کی نذر کروں گا۔ یہ نذرو نیاز کئی وجوہ سے باطل اور حرام ہے : ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ مخلوق کے لیے نذر ونیاز ہے، حالانکہ نذرونیاز عبادت ہے اور عبادت کسی مخلوق کے لیے جائز نہیں ۔ دوسری وجہ یہ کہ جس کے نام کی نذر ونیاز |