’’عصر و فجر کی دونوں نمازوں کے بعد مصافحہ ان بدعات میں سے ہے، جن کی۔ …شریعت میں کوئی دلیل نہیں ۔ بعض علما نے اسے ترک کرنا ہی پسند کیا ہے، کیونکہ یہ دین میں اضافہ ہے۔‘‘ (اللّمع في الحوادث والبِدَع : 1/283) ٭ علامہ ابن الحاج رحمہ اللہ (737ھ) فرماتے ہیں : ’’نمازی کو چاہیے کہ وہ نماز فجر وعصر اور جمعہ کے بعد اس مصافحہ سے باز رہے، جسے لوگوں نے دین میں اضافہ کر کے رواج دیا ہے۔بعض لوگوں نے تو اس میں اور اضافہ کیا اور پانچوں نمازوں کے بعد ایسا کرنے لگے ہیں ۔ یہ سب بدعات ہیں ۔شریعت میں مصافحہ کا وقت مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی سے ملنا ہے، نہ کہ پانچوں نمازوں کے بعد۔اس طرح کے سارے کام بدعت ہیں ۔شریعت نے جس کام کو جیسے رکھا ہے، ہم ویسے ہی رکھیں گے۔اس کام سے روکا جائے اور ایسا کرنے والے کو ڈانٹا جائے، کیونکہ اس نے خلاف سنت فعل کا ارتکاب کیا ہے۔‘‘ (المَدخل : 2/223) ٭ علامہ ابن عابدین شامیحنفی رحمہ اللہ (1252ھ)لکھتے ہیں : تُکْرَہُ الْمُصَافَحَۃُ بَعْدَ أَدَائِ الصَّلَاۃِ بِکُلِّ حَالٍ، لِأَنَّ الصَّحَابَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ مَّا صَافَحُوا بَعْدَ أَدَائِ الصَّلَاۃِ، وَلِأَنَّہَا مِنْ سُنَنِ الرَّوَافِضِ ۔ ’’نماز ادا کرنے کے بعد مصافحہ کرنا بہر صورت مکروہ ہے، کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم |