نیز اہل علم نے اس مصافحہ کو بدعت قرار دیا ہے۔ ٭ علامہ عبد السلام مقدسی رحمہ اللہ (678ھ)فرماتے ہیں : اَلْمُصَافَحَۃُ عَقِیبَ الصُّبْحِ وَالْعَصْرِ مِنَ الْبِدَعِ، إِلَّا الْقَادِمَ لَمْ یَجْتَمِعْ بِمَنْ یُّصَافِحُہٗ قَبْلَ الصَّلَاۃِ؛ فَإِنَّ الْمُصَافَحَۃَ مَشْرُوعَۃٌ عِنْدَ الْقُدُومِ ۔ ’’نماز فجر وعصر کے بعد مصافحہ بدعت ہے۔ سوائے اس نئے آنے والے کے، جو نماز سے پہلے اس شخص سے مصافحہ نہیں کر سکا، جس سے اب کر رہا ہے، کیونکہ آتے وقت مصافحہ کرنا مشروع ہے۔‘‘ (فتاوی العزّ عبد السلام، ص 389) ٭ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) سے جب پوچھا گیا کہ نماز کے بعد مصافحہ سنت ہے یا نہیں ؟، تو فرمایا : اَلْمُصَافَحَۃُ عَقِیبَ الصَّلَاۃِ لَیْسَتْ مَسْنُونَۃً، بَلْ ہِيَ بِدْعَۃٌ ۔ ’’نماز کے بعد مصافحہ مسنون نہیں ، بلکہ بدعت ہے۔‘‘ (مجموع الفتاوٰی : 23/339) ٭ علامہ ترکمانی رحمہ اللہ (800ھ)لکھتے ہیں : أَمَّا الْمُصَافَحَۃُ فِي الصَّلَاتَیْنِ؛ بَعْدَ صَلَاۃِ الْعَصْرِ وَبَعْدَ صَلَاۃِ الصُّبْحِ، فَبِدْعَۃٌ مِّنَ الْبِدَعِ الَّتِي … لَا أَصْلَ لَہَا فِي الشَّرْعِ، وَاخْتَارَ بَعْضُ الْعُلَمَائِ تَرْکَہَا، لِأَنَّہَا زِیَادَۃٌ فِي الدِّینِ ۔ |