دَخَلَ أَحَدٌ فِي الْمَسْجِدِ وَالنَّاسُ فِي الصَّلَاۃِ، أَوْ عَلٰی إِرَادَۃِ الشُّرُوعِ فِیہَا، فَبَعْدَ الْفَرَاغِ لَوْ صَافَحَہُمْ، لَکِنْ بِشَرْطِ سَبْقِ السَّلَامِ عَلَی الْمُصَافَحَۃِ، فَہٰذَا مِنْ جُمْلَۃِ الْمُصَافَحَۃِ الْمَسْنُونَۃِ بِلَا شُبْہَۃٍ ۔ ’’علامہ نووی رحمہ اللہ کے کلام میں واضح طور پر کچھ تناقض ہے۔ کسی سنت پر بعض اوقات عمل تو بدعت نہیں ، نیز مذکورہ دونوں اوقات (فجروعصر کی نماز کے بعد) میں لوگوں کا مصافحہ کرنا مستحب و مشروع طور پر نہیں ہوتا، لیکن جو مصافحہ شریعت سے ثابت ہے، اس کا محل آغاز ِملاقات ہے۔ یہاں ایسا ہوتا ہے کہ لوگ آپس میں بغیر مصافحہ کے ملتے ہیں ، بہت دیر تک باہم بات چیت بھی کرتے ہیں اور ان کے مابین علمی مذاکرہ وغیرہ بھی ہوتا ہے، پھر جب وہ نماز پڑھتے ہیں ، تو ایک دوسرے سے مصافحہ کرنے لگتے ہیں ۔ اس طرزِ عمل کا مسنون طریقے سے کیا تعلق ہے؟ اسی لیے ہمارے بعض علما نے اس صورت میں مصافحہ مکروہ اور بدعت مذمومہ قرار دیا ہے۔ ہاں ، اگر کوئی شخص ایسے وقت میں مسجد کے اندر داخل ہوا، جب لوگوں نے نماز شروع کر رکھی تھی یا وہ نماز شروع کرنے والے تھے، تو نماز سے فارغ ہو کر ان سے مصافحہ کر سکتا ہے، لیکن اس کے لیے بھی شرط یہ ہے کہ پہلے سلام کہے، پھر مصافحہ کرے۔ یہ طریقہ بلاشبہ مسنون مصافحہ ہے۔‘‘ (مِرقاۃ المَفاتیح : 8/458) |