وَمِنْہُمْ مَّنْ أَطْلَقَ تَحْرِیمَ مِثْلِ ذٰلِکَ، کَصَلَاۃِ الرَّغَائِبِ الَّتِي لَا أَصْلَ لَہَا ۔ ’’علامہ نووی رحمہ اللہ کا کہنا کہ مصافحہ کی بنیاد سنت پر ہے اور بعض لوگوں کا بعض اوقات میں اس کی پابندی کرنا اس کو سنت سے خارج نہیں کرتا۔ میں (ابن حجر) کہتا ہوں کہ یہ بات محل نظر ہے،کیونکہ نفل نماز اصل میں سنت سے ثابت اور مؤکدہ ہے، لیکن اس کے باوجود محققین اہل علم نے اسے کسی وقت کے ساتھ خاص کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے، بلکہ بعض نے تو ایسی صورت کو حرام بھی قرار دیا ہے، جیسے ’’صلاۃ الرغائب‘‘ بے اصل نماز ہے۔‘‘ (فتح الباري : 11/55) ٭ علامہ ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ (1014ھ)لکھتے ہیں : لَا یَخْفٰی أَنَّ فِي کَلَامِ الْإِمَامِ نَوْعُ تَنَاقُضٍ، لِأَنَّ إِتْیَانَ السُّنَّۃِ فِي بَعْضِ الْـأَوْقَاتِ لَا یُسَمّٰی بِدَعَۃً، مَعَ أَنَّ عَمَلَ النَّاسِ فِي الْوَقْتَیْنِ الْمَذْکُورَیْنِ لَیْسَ عَلٰی وَجْہِ الِْاسْتِحْبَابِ الْمَشْرُوعِ، فَإِنَّ مَحَلَّ الْمُصَافَحَۃِ الْمَشْرُوعَۃِ أَوَّلُ الْمُلَاقَاۃِ، وَقَدْ یَکُونُ جَمَاعَۃٌ یَّتَلَاقَوْنَ مِنْ غَیْرِ مُصَافَحَۃٍ، وَیَتَصَاحَبُونَ بِالْکَلَامِ وَمُذَاکَرَۃِ الْعِلْمِ وَغَیْرِہٖ مُدَّۃً مَّدِیدَۃً، ثُمَّ إِذَا صَلَّوْا یَتَصَافَحُونَ، فَأَیْنَ ہٰذَا مِنَ السُّنَّۃِ الْمَشْرُوعَۃِ؟ وَلِہٰذَا صَرَّحَ بَعْضُ عُلَمَائِنَا بِأَنَّہَا مَکْرُوہَۃٌ حِینَئِذٍ، وَأَنَّہَا مِنَ الْبِدَعِ الْمَذْمُومَۃِ، نَعَمْ، لَوْ |