امت کے لیے بہتر جانتے، اس کی طرف ان کی راہ نمائی کرتے اور جس چیز کو ان کے لیے برا جانتے، اس سے انہیں ڈراتے۔‘‘ (صحیح مسلم : 1844) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہر خیروشر کے بارے میں اپنی اُمت کو آگاہ فرما دیا ہے۔ علامہ ابن رجب رحمہ اللہ (795ھ)فرماتے ہیں : مَنْ تَقَرَّبَ إِلَی اللّٰہِ بِعَمَلٍ لَّمْ یَجْعَلْہُ اللّٰہُ وَرَسُولُہٗ قُرْبَۃً إِلَی اللّٰہِ؛ فَعَمَلُہٗ بَاطِلٌ مَّرْدُودٌ ۔ ’’جو کسی ایسے عمل کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرے، جسے اللہ و رسول نے تقربِ الٰہی کا ذریعہ نہیں بنایا، تو اس کا یہ عمل مردود و باطل ہے۔‘‘ (جامع العلوم والحِکَم : 1/178) اہل علم نے مخصوص نمازوں کے بعد مصافحہ کو بدعت ہی قرار دیا ہے۔ علامہ نووی رحمہ اللہ نے اس کے جواز کی طرف رجحان کیا، تو اہل علم نے ان کی اس بات کا سختی سے ردّ فرمایا۔ ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852ھ)فرماتے ہیں : قَالَ النَّوَوِيُّ : وَأَصْلُ الْمُصَافَحَۃِ سُنَّۃٌ، وَکَوْنُہُمْ حَافَظُوا عَلَیْہَا فِي بَعْضِ الْـأَحْوَالِ لَا یُخْرِجُ ذٰلِکَ عَن أَصْلِ السُّنَّۃِ، قُلْتُ : وَلِلنَّظَرِ فِیہِ مَجَالٌ، فَإِنَّ أَصْلَ صَلَاۃِ النَّافِلَۃِ سُنَّۃٌ مُرَغَّبٌ فِیہَا، وَمَعَ ذٰلِکَ فَقَدَ کَرِہَ الْمُحَقِّقُونَ تَخْصِیصَ وَقْتٍ بِہَا دُونَ وَقْتٍ، |