إِنْکَارُہٗ عَلٰی کُلِّ مُکَلَّفٍ تَمَکَّنَ مِنْ إِنْکَارِہٖ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ ۔ ’’یہ واضح برائی اور انتہائی قابل مذمت چیز ہے، اس کے حرام ہونے پر علما کا اجماع ہے، ماوردی اور دوسرے کئی ایک اماموں نے اس کے حرام ہونے پر اجماع نقل کیا ہے، حاکم وقت اس فعل پر ان کو ڈانٹے اور تعزیر قائم کرے اور اس فعل سے توبہ کرائے، ہر مکلف جو اس کے انکار پر قدرت و طاقت رکھتاہے، اس پر انکار لازم ہے۔‘‘(فتاوی النّووي : 36) 7.شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) لکھتے ہیں : کَانَ رَفْعُ الصَّوْتِ فِي ہٰذِہِ الْمَوَاطِنِ الثَّلَاثَۃِ مِنْ عَادَۃِ أَہْلِ الْکِتَابِ وَالْـأَعَاجِمِ، ثُمَّ قَدِ ابْتُلِيَ بِہَا کَثِیرٌ مِّنْ ہٰذِہِ الْـأُمَّۃِ ۔ ’’(جنازے، قتال اور ذکر) تینوں مقامات پر آواز بلند کرنا اہل کتاب اور عجمیوں کی عادت تھی، لیکن اس امت کے بہت سارے لوگ بھی اس میں مبتلا ہو گئے ہیں ۔‘‘ (اقتضاء الصّراط المستقیم : 1/316) نیز فرماتے ہیں : ’’جنازے کے ساتھ آواز بلند کرنا بالاتفاق مکروہ ہے، خواہ قرأت ہی ہو۔‘‘ (الإختیارات الفقھیۃ : 88) مزید لکھتے ہیں : لَا یُسْتَحَبُّ رَفْعُ الصَّوْتِ مَعَ الْجِنَازَۃِ لَا بِقِرَائَ ۃٍ وَّلَا ذِکْرٍ وَّلَا غَیْرِ ذٰلِکَ، ہٰذَا مَذْہَبُ الْـأَئِمَّۃِ الْـأَرْبَعَۃِ وَہُوَ الْمَأْثُورُ عَنْ السَّلَفِ |