السَّکُوتُ فِي حَالِ السَّیْرِ مَعَ الْجِنَازَۃِ، فَلَا یَرْفَعُ صَوْتًا بِقِرَائَ ۃٍ، وَّلَا ذِکْرٍ، وَّلَا غَیْرَ ذٰلِکَ، وَالْحِکْمَۃُ فِیْہِ ظَاہِرَۃٌ، وَہِيَ أَنَّہٗ أَسْکَنُ لِخَاطِرِہٖ، وَأَجْمَعُ لِفِکْرِہٖ فِیمَا یَتَعَلَّقُ بِالْجِنَازَۃِ، وَہُوَ الْمَطْلُوبُ فِي ہٰذَا الْحَالِ، فَہٰذَا ہُوَ الْحَقُّ، وَلَا تَغْتَرَّنَّ بِکَثْرَۃِ مَنْ یُّخَالِفُہَا ۔ ’’جان لیں ! درست اور مختار مذہب جس پر سلف کا عمل رہا ہے، یہ ہے کہ جنازہ کے ساتھ چلتے وقت سکوت اختیار کیا جائے، قرأت اور ذکر وغیرہ میں آواز بلند نہ کی جائے، اس میں حکمت ظاہر ہے کہ خاموشی انسان کے دل کو مطمئن اور جنازے کے متعلق چیزوں کے بارے میں اس کی فکر مجتمع کر دیتی ہے، اس حالت سے یہی مطلوب ہے اور یہی حق ہے، اس کی مخالفت کرنے والوں کی کثرت دیکھ کر دھوکہ مت کھائیں ۔‘‘ (الأذکار : 136) اسی طرح جب حافظ نووی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ دمشق میں بعض جاہل جنازے پر بری طرح کھینچ کھینچ کر، حد سے زیادہ سُر اور کلمات میں زائد حروف داخل کرکے قراء ت کرتے ہیں ، کیا ایسا کرنا مذموم نہیں ؟ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ)نے فرمایا : ہٰذَا مُنْکَرٌ ظَاہِرٌ، وَمَذْمُومٌ فَاحِشٌ، وَّہُوَ حَرَامٌ بِإِجْمَاعِ الْعُلَمَائِ، وَقَدْ نَقَلَ الِْإجْمَاعَ فِیہِ الْمَاوَرْدِيُّ، وَغَیْرُ وَاحِدٍ، وَعَلٰی وَلِيِّ الْـأَمْرِ، وَفَّقَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی، زَجْرُہُمْ عَنْہُ وَتَعْزِیرُہُمْ وَاسْتِتَابَتُہُمْ، وَیَجِبُ |