جواب : پکار کر پڑھنا تو مکروہ ہے، دل میں اگر پڑھیں ، تو مضائقہ نہیں ، بہتر خاموشی ہے (عالمگیری)‘‘ (رکن دین : 206) ایک شبہ اور اس کا ازالہ: احمد یا ر خان نعیمی صاحب لکھتے ہیں : ’’جن فقہا نے میت کے ساتھ ذکر بالجہر کو مکروہ فرمایا، ان کی مراد مکروہ تنزیہی ہے ۔‘‘ (جاء الحق : 1/410) مفتی صاحب کی تاویل درست نہیں ، ائمہ احناف نے تو اسے بدعت قبیحہ کہا ہے۔ علامہ ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ (970ھ)لکھتے ہیں : یَنْبَغِي لِمَنْ تَبِعَ جِنَازَۃً أَنْ یُّطِیلَ الصَّمْتَ وَیُکْرَہُ رَفْعُ الصَّوْتِ بِالذِّکْرِ وَقِرَائَ ۃِ الْقُرْآنِ وَغَیْرِہِمَا فِي الْجِنَازَۃِ وَالْکَرَاہَۃُ فِیہَا کَرَاہَۃَ تَحْرِیمٍ ۔ ’’جنازہ کے پیچھے چلنے والوں کے لیے مناسب ہے کہ لمبی خاموشی اختیار کریں ، جنازہ کے ساتھ اونچی آواز سے ذکر اور قرأت قرآن وغیرہ مکروہ ہے، اس میں کراہت تحریمی ہے ۔‘‘ (البحر الرّائق : 2/199) معلوم ہوا کہ مفتی صاحب کی توجیہ درست نہیں یہ محض بدعت کو کمزور سہارا دینے والی بات ہے، اس بدعت کے ڈانڈے شیعہ کے نوحے سے ملتے ہیں۔ 6.حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ)فرماتے ہیں : اِعْلَمْ أَنَّ الصَّوَابَ الْمُخْتَارَ مَا کَانَ عَلَیْہِ السَّلَفُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمُ : |