2.سالم بن عبد الواحد مرادی کا ضعف ہی راجح ہے۔ 3.اس روایت میں نماز جنازہ کے متصل بعد دعا کا ذکر نہیں ۔ اس روایت میں ثناء کا ذکر ہے، دعا کا ذکر کتب حدیث میں نہیں ملا۔ عبدالوہاب شعرانی صاحب لکھتے ہیں : مِنْ ذٰلِکَ قَوْلُ أَبِي حَنِیْفَۃَ : إِنَّ التَّعْزِیَۃَ سُنَّۃٌ قَبْلَ الدَّفْنِ لَا بَعْدَہٗ …لأَِنَّ شِدَّۃَ الْحُزْنِ إِنَّمَا تَکُوْنُ قَبْلَ الدَّفْنِ، فَیُعَزّٰی وَیُدْعٰی لَہٗ ۔ ’’امام ابو حنیفہ کا قول ہے کہ تعزیت کرنا دفن سے پہلے سنت ہے نہ کہ دفن کے بعد …اس لیے کہ غم کی شدت دفن سے پہلے ہی ہوتی ہے، لہٰذا (قبل دفن ہی) تعزیت اورمیت کے واسطے دعا کی جانی چاہیے۔‘‘ (کتاب میزان الشّریعۃ الکبرٰی : 1/185) اس قول میں عبدالوہاب شعرانی سے لے کر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تک سند موجود نہیں ، لہٰذا امام صاحب کی طرف اس کا انتساب کرنا درست نہیں ۔ صاحب کشف الغطاء، مانعین کا قول نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ’’دفن سے پہلے میت کے لیے فاتحہ اور دعا کرنا درست ہے۔ یہی روایت معمولہ (مفتی بہ) ہے، ایسا ہی خلاصۃ الفقہ میں ہے۔‘‘ (العطایا النّبویۃ : 4/30) 1.بے دلیل ہے ۔ 2.جمہور احناف کی تصریحات کے بھی خلاف ہے ۔ عبدالعلی برجندی نقل کرتے ہیں : قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ : لَا بَأْسَ بِہٖ (أَيْ بِالدُّعَائِ بَعْدَ صَلَاۃِ |