3.اس میں نماز جنازہ کے متصل بعد دعا کا ذکر نہیں ، یہاں تو ذکر ہے کہ جب وہ (مؤحد) فوت ہوتا ہے، تو فوراً فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں ، فرشتوں کی صلاۃ سے مراد دعا ہے، مؤمنین کے حق میں فرشتوں کی دعا سے مراد ان کے لیے مغفرت مانگنا ہوتا ہے، نہ کہ نماز جنازہ پڑھنا، جب صلاۃ سے مراد یہاں نماز ہے ہی نہیں ، تو دعا بعد الصلاۃ (نماز کے بعد کی دعا) کہاں سے آ گئی ؟ اسی روایت میں إِلٰی یَوْمِ الْبَعْثِ کے الفاظ ہیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ قیامت تک اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں ، دوسرے یہ کہ ہم فرشتوں کے افعال واقوال کے مکلف نہیں ہیں ، ہمارے لیے شرعی نصوص حجت ہیں ، نہ ہی فرشتے اس شریعت کے مکلف ہیں ۔ دلیل نمبر 10: عمیر بن سعد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : صَلَّیْتُ مَعَ عَلِيٍّ عَلٰی یَزِیدَ بْنِ الْمُکَفَّفَ فَکَبَّرَ عَلَیْہِ أَرْبَعًا، ثُمَّ مَشٰی حَتّٰی أَتَاہُ فَقَالَ : اَللّٰہُمَّ عَبْدُکَ وَابْنُ عَبْدِکَ نَزَلَ بِکَ الْیَوْمَ فَاغْفِرْ لَہٗ ذَنْبَہٗ، وَوَسِّعْ عَلَیْہِ مُدْخَلَہٗ، فَإِنَّا لَا نَعْلَمُ مِنْہُ إِلَّا خَیْرًا وَّأَنْتَ أَعْلَمُ بِہٖ ۔ ’’میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ یزید بن مکفف کی نماز ِ جنازہ پڑھی، تو علی رضی اللہ عنہ نے اس پر چار تکبیریں (نماز جنازہ) پڑھیں ، پھر چل کر قبر کے قریب ہوئے اور دعا کی کہ اللہ! یہ تیرا بندہ اور تیرے بندے کا بیٹا ہے، جو |