حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔ (تلخیص المستدرک : 1/555) 2.اس میں نماز ِ جنازہ کے اندر چوتھی تکبیر کے بعد دعا کا ثبوت ملتا ہے، نہ کہ سلام کے بعد انفرادی یا اجتماعی دعا کا، ایک روایت میں صراحت ہے : کَبَّرَ عَلٰی جِنَازَۃٍ أَرْبَعًا، ثُمَّ قَامَ سَاعَۃً یَّعْنِي یَدْعُو، ثُمَّ قَالَ : أَتَرَوْنِي کُنْتُ أُکَبِّرُ خَمْسًا؟ قَالُوا : لَا … ۔ ’’آپ نے ایک جنازہ پر چار تکبیریں کہہ دیں ، پھر کچھ دیر کے لیے دعا کرتے ہوئے کھڑے ہو گئے، پھر فرمایا : آپ کا خیال تھا کہ میں پانچویں تکبیر کہوں گا، لوگوں نے کہا، نہیں …۔‘‘ (السّنن الکبرٰی للبیہقي : 4/35، وسندہٗ حسنٌ) امام بیہقی رحمہ اللہ اس روایت پر تبویب کرتے ہیں : بَابُ مَا رُوِيَ فِي الِْاسْتِغْفَارِ لِلْمَیِّتِ وَالدُّعَائِ لَہٗ مَا بَیْنَ التَّکْبِیرَۃِ الرَّابِعَۃِ وَالسَّلَامِ ۔ ’’چوتھی تکبیر اور سلام کے درمیان میت کے لیے دعا کا بیان۔‘‘ (السّنن الکبرٰی : 4/42) ایک محدث اپنی روایت کو بہتر سمجھتا ہے۔ دلیل نمبر8: ابو بکر بن مسعود کاسانی حنفی رحمہ اللہ (587ھ) نقل کرتے ہیں : |