مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب لکھتے ہیں : ’’ ’’ف‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے فوراً بعد دعا کی جاوے، بلا تاخیرجو لوگ اس کے معنیٰ کرتے ہیں کہ نماز میں اس کے لیے دعا مانگو، وہ ’ف ‘ کے معنی سے غفلت کرتے ہیں ، صَلَّیْتُمْ شرط ہے اور فَأَخْلِصُوا اس کی جزا، شرط اور جزا میں تغایر چاہیے، نہ یہ کہ اس میں داخل ہو، پھر صَلَّیْتُمْ ماضی ہے اور فَأَخْلِصُوا امر ہے، اس سے معلوم ہوا کہ دعا کا حکم نماز پڑھ چکنے کے بعد ہے، جیسے فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا میں کھا کر جانے کا حکم ہے، نہ کہ کھانے کے درمیان ۔۔۔اور فاء سے تاخیر ہی معلوم ہوئی۔‘‘ (جاء الحق : 274) مفتی صاحب کیسے عجیب انداز سے محدثین اور ائمہ احناف کو ’’غفلت‘‘ کا الزام دے رہے ہیں ۔ حالانکہ یہاں تغایر موجود ہے، وہ ہے کلیت اور جزئیت کا تغایر، نماز کلیت کے اعتبار سے افعال واقوال کے مجموعہ کا نام ہے، جبکہ دعا ایک جزء ہے، جسے قول کہا جاتا ہے، شرط اور جز اء کے درمیان اتنی سی مغایرت کافی ہے، ورنہ نماز جنازہ کو دعاؤں سے خالی کرنا پڑے گا، کیونکہ من کل الوجوہ مغایر ت اس وقت ہو گی، جب نماز جنازہ کے اندر کوئی بھی دعا نہ ہو۔ اگر شرط اور جزا میں من وجہ مغایرت کافی ہو، تو یہاں بھی مغایرت موجود ہے۔ دوسرے یہ کہ جب ماضی پر ’’اذا‘‘ داخل ہو جائے، تو معنی مستقبل کا پیدا ہو جاتا |