مقرر کیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب المناقب. باب ہجرۃ النبی واصحابہ الی المدینۃ) اعتراض کی گنجائش کے دو واقعات تو اوپر مذکورہ ہوئے۔ بخاری میں ایک تیسرا واقعہ بھی مذکور ہے جو یہ ہے کہ ’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نےمہاجرین اولین کا وظیفہ تو چار ہزار درہم مقرر کیا مگر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ساڑھے تین ہزار۔ آپ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ’’ آپ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کا وظیفہ کیوں کم رکھا حالانکہ وہ بھی مہاجرین اولین میں سے ہیں۔‘‘ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ کی ہجرت اس کے ماں کے ذیل میں ہوئی تھی۔ وہ اس کے برابر نہیں ہوسکتے جس نے اپنی ذات سے ہجرت کی۔‘‘ (حوالہ ایضاً) مندرجہ بالا تصریحات سے واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وظائف کے تعین میں اسلامی خدمات، رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت اور محبت کو ملحوظ رکھا۔ اگر آپ رضی اللہ عنہ کا یہ جذبہ قابل قدر اور نہایت نیک نیتی پر مبنی تھا مگر وظائف کی تقسیم میں کسی کی احتیاج کو ملحوظ رکھنا ہی وہ بہترین پالیسی تھی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نےاختیار تھا۔ مراتب و قرابت کے لحاظ سے وظائف کی تقسیم کےخطرناک تنائج جلد ہی سامنے آنے لگے مثلاً ایک طبقہ کی دولت کا بہت بڑھ جانا اور سال بہ سال منافع کے ذریعہ بڑھتے چلے جانا۔ اقتصادیات کی روسے یہ ایک جانی پہچانی حقیقت ہے کہ نفع میں اضافہ راس المال کے اضافہ کے تناسب سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ یہی وہ نتائج تھے جن کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ |
Book Name | اسلام میں دولت کے مصارف |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبۃ السلام، لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 138 |
Introduction | مصارف دولت کے مضمون پر اس کتاب میں موصوف نے تین ابواب پر بحث کی ہے اس میں مصنف نے بے شمار دلائل کو کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے پہلے باب میں شرعی احکام کی حکمت بتائی ہے حالات کے لحاظ سے مراعات کی تقسیم , کم استعداد والوں کے لیے مراعات اور زیادہ استعداد والوں کے لیے ترغیبات کی وضاحت فرماتے ہوئے واجبی اور اختیاری صدقات کا بلند درجہ بھی بتایا ہے جبکہ دوسرے باب میں عورتوں کا حق مہر اور اسلام میں دولت فاضلہ یا اکتناز کے حق میں دلائل دیتے ہوئے ارکان اسلام کی بجا آوری کی بھی وضاحت فرمائی ہے اور اس طرح خلفائے راشدین اور فاضلہ دولت پر بحث کرکے امہات المومنین کا کردار اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی بھی نشاندہی کی ہے تیسرے باب میں جاگیرداری اور مزارعت کا ذکر کیا گیا ہے جس میں بنجر زمین کی آبادکاری , جاگیریں بطور عطایا , آبادکاری کے اصول , ناجائز اور غیر آباد جاگیروں کی واپسی , زمین سے استفادہ کی مختلف صورتیں اور اسلام نظام معیشت میں سادگی اور کفالت شعاری کا مقام بتاتے ہوئے مزارعت کے قائلین اور منکرین کے دلائل کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ |