تقریظ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے انسانیت کو جن مشکلات سے دو چار کیا ہے‘ اتنا شاید کسی اورچیز نے نہیں کیا۔ طاقت ورطبقوں کی نہ ختم ہونے والی ہوس کی وجہ سے بھوکے انسانوں کا جو جم غفیر وجود میں آیا اس کو بھی‘ رد عمل کے طور پر‘ چھیننے جھپٹنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نظر نہ آیا ۔ پرولتاری انقلاب نے چھننے کا مرحلہ مکمل کرنے کے بعد جب نیا نظام تعمیر کرنا شروع کیا تو اس کی بنیاد رکھنے کے لیے جبر‘ انسانی ارادے اور اختیار پر شدید قدغن لگائے بغیر کچھ بنانا ممکن نظر نہ آیا تو غریب کو مال و زر کے بعد اختیار اورفکر آزادی کی عظیم تر دولت سے بھی محروم ہونا پڑا۔ جب پنڈولم کی حرکت واپس دوسری انتہا کے لیے شروع ہو گئی تو پرولتاری انقلاب کی جگہ معاشی استحصال‘ لوٹ مار‘ بیروزگاری اورافلاس کی فرمانروائی شروع ہو گئی ۔ ایک سپر پاور کا انہدام دنیا میں طاقت کے شدید عدم توازن پر منتج ہوا۔ اس کے نتیجے میں آج استحصالیوں نے گلوبلائزیشن کے ذریعے ساری دنیا کو معاشی غلامی میں جکڑنے کوشش شروع کر دی ہیں اور انسانیت کا مستقبل تاریک تر نظر آتا ہے۔ غریب افراد ہی نہیں‘ غریب اقوام تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہیں۔ کیا ان دونوں انتہاؤں کے درمیان تقسیم دولت کا کوئی ایسا طریقہ موجود ہے جو اعتدال اور توازن پر مبنی ہو؟ یقیناَ یہ نظام ہو سکتا ہے جس میں دولت کی ملکیت نہیں بلکہ دولت کی ہوس کو ختم کیا گیا ہو۔ دوسری طرف چھیننے اور لوٹنے کی بجائے عطا کرنے اور ایثار کرنے کا طریقہ اپنایا گیا ہو۔ اسلام کا معاشی نظام انہیں دو اصولوں پر قائم ہے ۔ مولانا عبدالرحمان کیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں اس معتدل معاشی نظام کے بنیادی اصولوں پر خوبصورت بحث کی |
Book Name | اسلام میں دولت کے مصارف |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبۃ السلام، لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 138 |
Introduction | مصارف دولت کے مضمون پر اس کتاب میں موصوف نے تین ابواب پر بحث کی ہے اس میں مصنف نے بے شمار دلائل کو کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے پہلے باب میں شرعی احکام کی حکمت بتائی ہے حالات کے لحاظ سے مراعات کی تقسیم , کم استعداد والوں کے لیے مراعات اور زیادہ استعداد والوں کے لیے ترغیبات کی وضاحت فرماتے ہوئے واجبی اور اختیاری صدقات کا بلند درجہ بھی بتایا ہے جبکہ دوسرے باب میں عورتوں کا حق مہر اور اسلام میں دولت فاضلہ یا اکتناز کے حق میں دلائل دیتے ہوئے ارکان اسلام کی بجا آوری کی بھی وضاحت فرمائی ہے اور اس طرح خلفائے راشدین اور فاضلہ دولت پر بحث کرکے امہات المومنین کا کردار اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی بھی نشاندہی کی ہے تیسرے باب میں جاگیرداری اور مزارعت کا ذکر کیا گیا ہے جس میں بنجر زمین کی آبادکاری , جاگیریں بطور عطایا , آبادکاری کے اصول , ناجائز اور غیر آباد جاگیروں کی واپسی , زمین سے استفادہ کی مختلف صورتیں اور اسلام نظام معیشت میں سادگی اور کفالت شعاری کا مقام بتاتے ہوئے مزارعت کے قائلین اور منکرین کے دلائل کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ |