Maktaba Wahhabi

79 - 112
حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں:’’ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طاعت اور تقویٰ اختیار کرنے کا حکم ہے اور اس بات کی خبردی گئی ہے، کہ اللہ تعالیٰ نصرت و تائید کے ذریعہ سے دنیا و آخرت میں متقی لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ‘‘[1] شیخ سعدی رقم طراز ہیں: ’’ اللہ تعالیٰ نے خبردی ہے، کہ وہ اعانت، نصرت، تائید اور توفیق عطا کرنے کے ذریعہ سے متقی لوگوں کے ساتھ ہیں۔ اور جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہوجائیں، اس کو ابدی سعادت میسر آگئی۔ اور جس نے تقویٰ چھوڑا، اللہ تعالیٰ اس سے اعراض فرمالیتے ہیں، اور اس کو اس کے نفس کے سپرد کردیتے ہیں اور اس کی ہلاکت شہ رگ سے زیادہ اس کے قریب ہوجاتی ہے۔ ‘‘[2] ب: ارشادِ ربّ العالمین ہے: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُمْ مِّنَ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوْا فِیْکُمْ غِلْظَۃً وَاعْلَمُوْٓا أَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ} [3] [ اے ایمان والو! ان کفار سے لڑو، جو تمہارے آس پاس ہیں اور چاہیے کہ وہ [جنگ میں]تمہاری سختی محسوس کریں اور یاد رکھو ، کہ اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کے ساتھ ہیں]۔ حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے: یعنی کافروں سے جنگ کرو اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرو۔ اس بات کا یقین کرلو، کہ جب تم اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کروگے اور ان کی اطاعت کروگے، تو وہ بلاشبہ تمہارے ساتھ ہوں گے۔ خیر کے تینوں زمانوں میں جب لوگ استقامت اور طاعت الٰہیہ کے اعتبار سے بلندیوں پر فائز تھے، تو وہ اپنے دشمن پر غالب رہے، بہت سی فتوحات ہوئیں اور ان کے دشمن پستی اور خسارے میں رہے۔ پھر جب بادشاہوں کے درمیان فتنے، خواہشات اور اختلافات رونما ہوئے، تو دشمنوں نے اسلامی سلطنت کے اطراف کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا اور ان کی طرف پیش قدمی کی۔ بادشاہوں کے باہمی اختلافات کی بنا پر انہیں روکا نہ گیا۔ انہوں نے سرزمین اسلام کی طرف پیش قدمی جاری رکھی اور اس کی اطراف میں سے بہت سے شہروں پر قبضہ کرلیا۔ معاملہ بگڑتا گیا، یہاں تک کہ انہوں نے بہت
Flag Counter