Maktaba Wahhabi

65 - 112
(۱) اللہ تعالیٰ کے ہاں عزت و تکریم پانا تقویٰ کی برکات میں سے ایک یہ ہے، کہ اس کی بدولت بندہ اللہ تعالیٰ کے ہاں معزَّز و مکرَّم ہوجاتا ہے۔ جس قدر تقویٰ میں بلند ہوگا، اسی قدر اللہ کریم کے ہاں اس کا مقام و مرتبہ اونچا ہوگا۔ اسی بارے میں دو آیات کریمہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیے: ا: {یٰٓأَیُّھَا النَّاسُ إِِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا إِِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَ تْقَاکُمْ إِِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ } [1] [ اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔ اور تمہیں جماعتیں اور قبیلے بنادیا ہے، تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرسکو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ باعزت وہ ہے، جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ خوب جاننے والے اور خوب باخبر ہیں۔] حافظ ابن کثیر نے تحریر کیا ہے، کہ ارشادِ ربانی {إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقَاکُمْ} سے مراد یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہارے مقام کی ایک دوسرے سے بلندی تقویٰ کی بنا پر ہے، حسب و نسب کی وجہ سے نہیں۔ [2] علامہ قاشانی نے لکھا ہے، کہ ارشادِ ربانی {إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقَاکُمْ} کا معنی یہ ہے، کہ حسب و نسب عزت و فضیلت کا سبب نہیں، کیونکہ ایک مرد اور ایک عورت کی طرف نسبت میں ساری انسانیت برابر ہے۔ جماعتوں اور قبیلوں کی تفریق حسب و نسب کی شناخت کی غرض سے ہے، ایک دوسرے پر فخر کے لیے نہیں، کیونکہ ایسا کرنا گھٹیا اعمال میں سے ہے۔ اور عزت و تکریم ایسے اعمال سے دور رہنے میں ہے۔ اور یہی بات تقویٰ کی اساس ہے۔ پھر جس قدر کسی شخص کا تقویٰ زیادہ ہوگا، اتنا ہی وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند و بالا اور قدر و منزلت والا ہوگا۔ [3] ب: اللہ کریم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
Flag Counter