Maktaba Wahhabi

58 - 112
بیان فرمایا ، کہ بلاشبہ تقویٰ بہترین لباس ہے، جیسا کہ ایک شاعر نے کہا: إِذَا الْمَرْئُ لَمْ یَلْبَسْ ثِیَابًا مِنَ التُّقَی تَقَلَّبَ عُرْیَانًا ، وَإِنْ کَانَ کَاسِیًا وَخَیْرُ لِبَاسِ الْمَرْئِ طَاعَۃُ رَبِّہِ وَلَا خَیْرَ فِیْمَنْ کَانَ لِلّٰہِ عَاصِیًا[1] [جب آدمی تقویٰ کا لباس نہ پہنے، تو وہ برہنہ ہو جاتا ہے ، اگرچہ اس نے کپڑے زیب تن بھی کیے ہوں۔ بندے کا بہترین لباس اپنے رب تعالیٰ کی تابع داری ہے ، اور اللہ تعالیٰ کے نافرمان میں کچھ خیر نہیں۔] ۲: شیخ سعدی نے تحریر کیا ہے: ’’ [اور تقویٰ کا لباس ، یہ اس سے بڑھ کر ہے]یعنی لباس حسی سے ، کیونکہ تقویٰ کا لباس بندے کے ساتھ جاری رہتا ہے ، نہ تو وہ بوسیدہ ہوتا ہے اور نہ ہی ختم ہوتا ہے ، اور وہ قلب و روح کا جمال ہے۔ جہاں تک لباس ظاہری کا تعلق ہے، وہ ستر ظاہری کی کچھ وقت کے لیے پردہ پوشی کرتاہے، یا انسان کے لیے (ظاہری) خوبصورتی کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں کچھ منفعت نہیں۔ اور اگر یہ لباس نہ ہو ، تو ظاہری ستر کی بے پردگی ہوتی ہے ، جو کہ بحالتِ مجبوری بندے کے لیے ضرر رساں نہیں۔ لیکن لباسِ تقویٰ کے نہ ہونے کی حالت میں ستر باطنی ختم ہو جاتا ہے اور بندے کے نصیب میں ذلت و رسوائی آتی ہے۔‘‘ [2] (۱۲) تونگری اور صحت کی خیرکا تقویٰ کے ساتھ مشروط ہونا تقویٰ کی قدرو منزلت کو اُجاگر کرنے والی ایک اہم حقیقت یہ ہے، کہ بندے کے لیے مال و دولت اور صحت و قوت میں صرف اسی حالت میں بھلائی اور خیرہے، جب کہ وہ دولت ِتقویٰ سے بہروہ ور ہو۔ نعمت تقویٰ کے فقدان کی صورت میں یہ سب کچھ بندے کے لیے نافرمانیوں میں اضافے اور
Flag Counter