Maktaba Wahhabi

92 - 112
ہے۔ اور یہ اس لیے فرمایا گیا، کیونکہ آسمان باپ کے قائم مقام، اور زمین ماں کی جگہ ہے۔ اور ان ہی دونوں سے اللہ تعالیٰ کی تخلیق و تدبیر کی بدولت تمام منافع اور عمدہ چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔ [1] (۱۳) کاموں کا سدھرنا تقویٰ کی عظیم المرتبت برکات میں سے ایک یہ ہے، کہ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کے اعمال سدھار دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا ۔ یُّصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا} [2] [ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور سیدھی بات کہو، اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دیں گے اور تمہارے گناہوں کو معاف فرمادیں گے۔ اور جس شخص نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی، اس نے بڑی کامیابی کو پالیا۔] حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں: اللہ تعالیٰ اپنے ایمان دار بندوں کو حکم دیتے ہوئے فرمارہے ہیں، کہ وہ ان کا تقویٰ اختیار کریں اور وہ ان کی اس شخص کی مانند عبادت کریں، جو گویا کہ انہیں [دورانِ عبادت] دیکھ رہا ہو، اور وہ قول سدید کہیں، یعنی سیدھی بات، کہ اس میں کجی اور انحراف نہ ہو۔ اور انہوں نے وعدہ فرمایا ہے، کہ اگر انہوں نے ایسے کیا، تو وہ ثواب میں ان کے اعمال کی اصلاح فرمادیں گے۔ اور اصلاح اعمال سے مراد یہ ہے، کہ وہ انہیں نیک اعمال کی توفیق عطا فرمائیں گے، ان کے سابقہ گناہوں کو معاف فرمائیں گے اور ان سے مستقبل میں جو گناہ سرزد ہوں گے، ان سے توبہ کی طرف ان کا میلان فرمادیں گے۔ [3] شیخ سعدی نے لکھا ہے: اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو پوشیدہ اور ظاہری ہر حالت میں تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور اس میں سے خصوصیت کے ساتھ سیدھی بات کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ پھر
Flag Counter