Maktaba Wahhabi

27 - 112
مبحث اوّل تقویٰ کا مفہوم ا۔لغوی معنی: علمائے اُمت نے تقویٰ کے لغوی معنی کو خوب واضح کیا ہے۔ ذیل میں تین علماء کے اقوال توفیق الٰہی سے نقل کیے جا رہے ہیں: ۱: علامہ فیروز آبادی نے تحریر کیا ہے: ’’وَقَاہُ ، وُقْیًا، وَوِقَایَۃٌ ، وَوَاقِیَۃً ‘‘ اس کو بچایا اور اسم [تقویٰ ]ہے۔ [1] ۲: علامہ زمخشری رقم طراز ہیں: ’’ [الْمُتَّقِيْ] [تقویٰ اختیار کرنے والا] [وَقَاہُ فَاتَّقَی] [اس کو بچایا ، سو وہ بچ گیا]سے اسم فاعل ہے اور [الْوِقَایَۃ] بہت زیادہ بچاؤ کرنا ہے۔ [2] ۳: علامہ راغب اصفہانی نے قلم بند کیا ہے: ’’[التَّقْوٰی]کے معنی کے بارے میں تحقیق یہ ہے ، کہ نفس کو اس چیز سے بچانا، جس سے اس کو اندیشہ ہو۔‘‘ [3] ب۔ شرعی معنی: علمائے اُمت نے تقویٰ کے شرعی معنی کی بھی خوب وضاحت کی ہے۔ توفیق الٰہی سے ذیل میں چند ایک عبارات پیش کی جارہی ہیں: ۱: علامہ قرطبی نے نقل کیا ہے، کہ حضرت عمر بن الخطاب نے حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہما سے تقویٰ کے بارے میں استفسار کیا ، تو انہوں نے کہا: ’’کیا آپ کبھی خار دار راستے میں چلے ہیں؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’ہاں۔‘‘
Flag Counter