Maktaba Wahhabi

86 - 241
اس پر سوار رہنا۔ ان لوگوں کی نیت میں فتور نظر آئے تو اونٹنی بھگالینا۔‘‘ حضرت عیاش رضی اللہ عنہ اطمینان سے ان کے ساتھ چلے آئے۔ راستے میں جب وہ جبل صبخان پر پہنچے تو مکار ابوجہل نے حضرت عیاش رضی اللہ عنہ سے کہا:’’میرے بھائی! میرا اونٹ تو بڑا سخت ہے۔ تم مجھے اپنی اونٹنی پر بٹھالو۔‘‘ حضرت عیاش رضی اللہ عنہ نے فوراً کہا: ’’ہاں، ہاں۔ کیوں نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اُنھوں نے اونٹنی کو فوراً بٹھا دیا اور زمین پر اتر آئے۔ وہ دونوں اپنی اپنی سواریوں سے اترے، حضرت عیاش رضی اللہ عنہ کی طرف لپکے اور انُ کی مشکیں کس دیں۔ اُنھیں اسی حالت میں ساتھ لیے مکہ پہنچے اور لوگوں سے کہنے لگے: ’’اہلِ مکہ! اپنے اپنے احمقوں پر یہی داؤ آزماؤ جو ہم نے آزمایا۔‘‘ پھر انھوں نے حضرت عیاش رضی اللہ عنہ کو قید خانے میں ڈال دیا۔[1] حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جہاں تک میں جانتا ہوں، عمر بن خطاب کے سوا تمام مہاجرین نے دبے پاؤں ہجرت کی تھی۔ عمر بن خطاب نے جب ہجرت کے لیے رختِ سفر باندھا تو تلوار اٹھائی، کمان کندھے پر رکھی، ترکش میں سے چند تیر نکال کر ہاتھ میں لیے اور حرمِ کعبہ میں گئے۔ قریش کے سردار معمول کی مجلسوں میں بیٹھے تھے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دھڑلے سے بیت اللہ کا طواف کیا۔ سات پھیرے لگا کر مقامِ ابراہیم پر آئے اور نماز پڑھی، پھر فرداً فرداً سردارانِ قریش کی تمام ٹولیوں میں کھڑے ہو کر بآوازِ بلند کہا: ’’یہ چہرے بدنما ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ انھی چہروں کو رسوا کرے۔ جو آدمی اپنی ماں کو بے اولاد، اپنی اولاد کو یتیم اور اپنی بیوی کو بیوہ کرنا چاہے وہ وادی کی دوسری طرف مجھ سے ملاقات کرلے۔‘‘
Flag Counter