Maktaba Wahhabi

209 - 241
یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ مال و دولت کی فراوانی اپنا رنگ نہ جماتی۔ خاص کر وہ افراد جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور جن کے دلوں میں ایمان نے گھر نہیں کیا تھا، اس صورتحال سے بے حد متأثر ہوئے۔ وہ پیسے کی دوڑ میں شامل ہوگئے۔ مارے حسد کے ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگے۔ یہی لوگ سب سے زیادہ فتنوں کا شکار ہوئے۔ ان میں وہ بگڑے ہوئے رئیس زادے بھی شامل تھے جنھیں خلیفۂ وقت نے من مانیاں کرنے سے روکا تو وہ ان کی جان کے دشمن بنے اور فتنہ پرور گروہ میں شامل ہوگئے۔ ایسے حالات میں جبکہ دولت کی فراوانی تھی اور لوگ مختلف علاقوں کو فتح کرنے کے بعد فارغ ہو کر اطمینان سے بیٹھ گئے تھے، لوگوں کو خلیفۂ وقت میں کیڑے نظر آنے لگے اور انھوں نے حکومتی اقدامات پر بے جا تنقید کرنی شروع کردی۔ یوں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا وہ فرمان بھی سمجھ میں آجاتا ہے جو آپ نے در بند کے وزیر حضرت عبدالرحمن بن ربیعہ باہلی رضی اللہ عنہ کو لکھ بھیجا تھا: ’’ رعایا میں سے بہت سے افراد کو مال و دولت کی فراوانی نے مغرور بنا دیا ہے، لہٰذا ان کے وظائف میں کمی کردو اور مسلمانوں کو خطرے میں نہ ڈالو۔ خدشہ ہے کہ وہ آزمائش میں پڑ جائیں گے۔‘‘[1] ایک اور موقع پر آپ نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’خبردار! یہ دنیا فانی ہے۔ یہ تمھیں غرور میں مبتلا نہ کرے۔ یہ تمھیں فکر آخرت سے غافل نہ کرے۔ زمانے کے حوادث سے بچو۔ جماعت سے وابستہ رہو۔ فرقوں اور تنظیموں میں مت بٹو۔‘‘[2]
Flag Counter