Maktaba Wahhabi

134 - 241
وہ (کام انجام دے کر) آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ رہا آپ کا مال اور یہ ہے تحفہ جو مجھے دیا گیا ہے۔ اگر وہ (اس بات میں) سچا ہے (کہ وہ تحفہ اُسی کو دیا گیا ہے) تو وہ اپنے باپ اور اپنی ماں کے گھر میں ہی کیوں نہ بیٹھا رہا کہ وہ تحفہ اسے وہاں ملتا۔ واللہ! آپ میں سے جو کوئی (زکاۃ کے) اِس مال میں سے کوئی شے ناحق لے گا وہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس شے کو (کندھوں پر) اٹھائے ہوگا۔‘‘ [1] اسی قبیل کا ایک اور واقعہ پڑھیے۔ زکاۃ و صدقات میں جو خو شبو آتی تھی، اسے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ کے حوالے کرتے تھے۔ آپ کی اہلیہ خو شبو کو دانتوں سے کاٹ کر اس کے ٹکڑے کرتیں اور بیچ ڈالتیں۔ فروخت ہونے والی خو شبو کی قیمت وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو لادیتیں اور وہ اسے بیت المال میں جمع کرا دیتے۔ دانتوں سے کاٹتے وقت تھوڑی بہت خو شبو ان کی انگلیوں کو لگ جاتی جسے وہ دوپٹے سے صاف کرلیتیں۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک روز گھر آئے تو انھیں خو شبو آئی۔ دریافت فرمایا: ’’یہ خو شبو کیسی ہے؟‘‘ اہلیہ نے بتایا کہ خو شبو کاٹتے ہوئے ہاتھوں کو لگ جاتی ہے جسے وہ دوپٹے سے صاف کرلیتی ہیں۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اس پر بھی غصہ آیا۔ فرمایا: ’’تم مسلمانوں کی خو شبو لگاتی ہو۔‘‘ فوراً اٹھے۔ اہلیہ کے سر پر سے دوپٹہ کھینچا۔ اسے پانی میں بھگویا اور مٹی پر ملا۔ سونگھ کر دیکھا۔ خو شبو آئی۔ پانی میں بھگویا اور دوبارہ مٹی پر ملا۔ کئی بار یہ عمل دہرایا تا آنکہ دوپٹے کی خو شبو غائب ہوگئی۔[2] یہ تھے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ۔ یگانۂ روز گار۔ ایسے اہلِ ایمان جن کی رگ رگ
Flag Counter