Maktaba Wahhabi

44 - 467
تھے۔ ان کی سخاوت کے بارے میں ابن بشر نے کہا ہے ’’وہ شریف النفس تھے۔ حلیم الطبع، سخی، سچے دل والے اور انصاف والے ہیں۔‘‘ اہل اسلام پر ان کےاثرات باقی ہیں۔ آنے والی نسلوں کے لیے انہوں نے اچھا نمونہ چھوڑا ہے۔ 1836ء کی بات ہے کہ اسماعیل آغا مصر سے آیا۔ اس کے ہمراہ خالد بن سعود تھا۔ خالد بن سعود آل سعود میں سے تھا۔ ابراہیم پاشا جب درعیہ کو خراب اور برباد کرنے کے بعد آل سعود کے خاندان کے افراد کو مصر لے گیا، ان میں وہ بھی تھا۔ اس کو دوبارہ مصر سے لایا گیا اور ینبع کے راستہ داخل ہونے کے بعد اس کا مقصد نجد کو دوبارہ فتح کرنا تھا۔ وہ ینبع سے حناکیہ کی طرف نکلا۔ وہ فیصل بن ترکی سے دو دو ہاتھ کرنا چاہتا تھا۔ فیصل بن ترکی اور مصری افواج کے کمانڈر خورشید پاشا کے درمیان صلح ہوئی۔ صلح کی شرائط میں پہلی شق یہ تھی کہ فیصل بن ترکی مصر چلے جائیں اور وہاں رہیں۔ علامہ ابن بشر لکھتے ہیں کہ ’’لڑائیوں میں ہمیشہ کامیابی فیصل بن ترکی کے حصہ میں آتی رہی۔ جب فیصل بن ترکی نے دیکھا کہ اب مسلمانوں کا خون بہانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے اور صلح ہی بہتر ہے تو انہوں نے صلح کر لی۔ صلح کی بنیادی شرائط میں یہ بھی تھا کہ فیصل مصر چلے جائیں چنانچہ وہ مصر جانے پر تیار ہوگئے۔ ان کے ہمراہ ان کا بھائی جلوی اور بھتیجا عبداللہ بن ابراہیم بن عبداللہ بھی تھے۔ فیصل کے دونوں صاحبزادے عبداللہ اور محمد بھی تھے۔ مصر پہنچنے کے بعد ان کو ایک گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ ابن بشر مزید لکھتے ہیں ’’امام فیصل بڑے تہجد گزار تھے اور دن کو بھی تلاوت
Flag Counter