Maktaba Wahhabi

43 - 467
ترکی بن عبداللہ اور ان کا صاحبزادہ فیصل شہزادہ ترکی بن عبداللہ بن محمد بن سعود بن محمد کا یہ ایک کارنامہ ہے کہ وہ دوبارہ آل سعود کی طاقت کو متحد کر کے ان قبائل سے برسرپیکار ہوئے جو ترکوں کے اطاعت میں ان کے ہمنوا ہو گئے تھے۔ وہ ایک تجربہ کار بہادر انسا ن تھے اس لیے اپنی تجربہ کاری سے ریاض پر قابض ہو گئے۔ وہ نہ صرف ریاض بلکہ نجد کے زیادہ تر علاقوں کو اپنے تسلط میں لے آئے۔ انہیں امام کا خطاب دیا گیا۔ شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن اسی شاخ ہیں جس سے ترکی بن عبداللہ کا تعلق تھا۔ مشاری بن عبدالرحمن کے ہاتھوں شہزادہ ترکی کے قتل کے بعد 1834ء میں ان کے صاحبزادے فیصل بن ترکی نے حکمرانی سنبھال لی۔ ابن بشر امام فیصل بن ترکی کے بارے میں لکھتے ہیں ’’امام فیصل بن ترکی نہ صرف بہادر تھے بلکہ ان میں وہ تمام اچھی صفات جمع تھیں جن پر فخر کیا جاسکتا ہے انہوں نے ان لوگوں کو بھی چین نہ لینے دیا جو ان کے والد کی موت کے ذمہ دار تھے۔ انہوں نے اپنے تدبر اور بہادری سے شاندار کارنامے انجام دئیے، تمام نجد اور عمان پھر ان کے قبضے میں آگئے۔ وہ ہمیشہ مسلمانوں کے مفاد کو مد نظر رکھتے تھے۔ وہ سیاست میں نرمی اور سختی دونوں استعمال کرتے تھے۔ ان کی سیاست کا مقابلہ دوسرے بڑے بڑے بادشاہ نہیں کر سکتے تھے۔ وہ صدقات اور خیرات دل کھول کر کرتے تھے۔ قرآن پاک پڑھنے والوں کا وہ خصوصی احترام کرتے تھے۔ علماء کے قدر دان تھے۔ بیواؤں اور مسکینوں کاخاص خیال رکھتے تھے۔ خون بہانے سے گریز کرتے
Flag Counter