Maktaba Wahhabi

76 - 120
وکمالات اور عزتیں حضور ہی کو سزاوار ہیں،مگر ’’افضل البشر‘‘ بھی ’’بشر‘‘ ہی ہوتا ہے،لہٰذا حضور کو بھی ’’بشر‘‘ ہونے کی حیثیت سے احوال وواقعات پیش آتے تھے،حضور کو بھی بھوک لگتی تھی،دھوپ میں جسم مبارک کو پسینہ آجاتا تھا،غزوہ احد میں تلوار نے حضور کو زخمی کردیا یہ نہیں ہوا کہ حضور نے پھونک ماری اور زخم اچھا ہوگیا،بلکہ جس طرح زخموں کے لیے انسان تدبیریں کیا کرتے ہیں حضرت علی اور حضرت فاطمہ نے اسی طرح کی تدبیریں اختیار کیں،شروع شروع میں خون تھما ہی نہیں،آخر میں چٹائی کا ٹکڑا جلا کر زخم پر رکھا گیا تو لہو بند ہوا۔ سیرۃ مقدسہ میں یہ بھی ملے گا کہ غزوہ خیبر میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی آشوب زدہ آنکھیں حضور کے لعاب دہن سے اچھی ہوجاتی ہیں،اور یہ بھی ملے گا کہ احد کی جنگ میں حضور کے قریب حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ تلوار سے کٹ کر گر پڑتا ہے اور حضور اس حادثہ کو نہ روک سکے،حضور کے بس میں ہوتا تو بھلا اپنے پیارے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کو اس بے دردی کے ساتھ شہید ہوجانے دیتے کہ ان کی لاش کا مثلہ کیا گیا اور ان کا پیٹ چاک کرکے کلیجہ نکال کر چبایا گیا،یہ وہ مقام قضا وقدر ہے جہاں نبی بھی اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے۔‘‘ [1] الغرض اصحاب علم ودین وفضلائے شرع متین نے اولیاء ومشائخ کے سلسلے میں رائج مبالغہ آمیز تصورات وعقائد اور غیر اسلامی افکار ونظریات پر جابجا اپنی تحریروں میں اظہار افسوس کیا ہے اور اس قسم کے مشرکانہ عقائد وتصورات سے ہمیشہ امت کو متنبہ کیا ہے۔ان کے احساسات اور تنبیہات کو’’تصوف مخالف‘‘ گردان کر دامن نہیں بچایا جاسکتا کیوں کہ یہ وہ حضرات ہیں جو تصوف سے ہمیشہ جڑے رہے ہیں اور اس راہ کے نشیب وفراز سے آشنا ہیں،ان کے تاثرات﴿شَھِدَ شَاھِدٌ مِّنْ أَھْلِھَا﴾کا درجہ رکھتے ہیں،لہٰذا اس پر ٹھنڈے دل سے غور کرکے عقائد واعمال کی اصلاح ضروری ہے۔ ٭٭٭٭٭٭٭
Flag Counter