Maktaba Wahhabi

122 - 120
یتقدر بقدرالضرورۃ ‘‘ وساوس وخطرات کے مندفع ہوجانے کے بعد یہ تصور شیخ بھی ترک کردینا چاہیے،[1] اوراس سے زیادہ تصور اگر چہ نافع نہیں مگر خوش عقیدہ کے لیے مضر بھی نہیں ہے،لیکن عوام الناس وضعیف العقائد کے لیے سخت مضر ہے،انہیں لوگوں کی وجہ سے حضرت مولانامحمد اسماعیل صاحب شہید نے تصور شیخ کو﴿مَا ہَذِہِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْ أَنتُمْ لَہَا عَاکِفُون﴾کے ماتحت بت پرستی میں داخل کیا ہے[2] کیونکہ متعارف تصور شیخ میں شیخ کی جانب اس قدر توجہ تام ہوتی ہے کہ شاغل غیر کا تصور بھی نہیں آنے دیتا اوراس قدر انہماک واستغراق اوراتنی توجہ میرے نزدیک ذوق وجدان سے خاص حق تعالیٰ کا حق ہے،پس غیر حق کی طرف ایسی توجہ شرک عملی کے مشابہ ہے کہ حق تعالیٰ کی طرف توجوکہ مقصود لذاتہ ہیں اتنی توجہ نہیں کی گئی اورغیر حق کی جانب اس قدر توجہ کی گئی،بعض حضرات توشغل رابطہ میں حق تعالیٰ کی طرف بھی قصداً توجہ نہیں کرتے،مجھ کو تویہ امر ذوق توحید کے خلاف معلوم ہوتا ہے ‘‘[3] مولانا حسین احمد مدنی مولانا حسین احمد مدنی کی سوانح حیات معروف بہ’’ مآثر شیخ الاسلام ‘‘ میں جناب اسیرادروی نے ذکرکیا ہے کہ مولانا نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ’’تصور شیخ ‘‘ پر ایک رسالہ تحریر فرمایا تھا اورانتقال سے ایک گھنٹہ قبل اس پر دستخط فرمائی۔ ادروی صاحب نے اس ضمن میں اس بات کابھی اعتراف کیا ہے کہ تصور شیخ کا مسئلہ طبقہ صوفیامیں بھی ہمیشہ متنازع رہا ہے،چنانچہ لکھتے ہیں:
Flag Counter