Maktaba Wahhabi

85 - 120
طرف بھی کچھ نہ کچھ اشارہ آچکا ہے۔مگر آیئے ائمہ تصوف سے اس موضوع پر کچھ تفصیلی معلومات حاصل کریں۔ طبقۂ صوفیاء سے تعلق رکھنے والے مصنفین نے ’’تصور شیخ ‘‘ کے جو مقاصد اورفوائد بیان کیے ہیں ان میں سے بعض کا بطور مثال یہاں تذکرہ کیا جارہا ہے: 1۔دفع وسواس وازالہ خطرات: مولانا اشرف علی تھانوی نے ’’ تصورشیخ ‘‘ کی تعلیل یوں کی ہے: ’’ اصل مقصود تصورحق تعالیٰ کا ہے،مگر اللہ تعالیٰ چونکہ مرئی نہیں ہے،اس لیے جن لوگوں کی قوت فکریہ ضعیف ہوتی ہے ان کو یہ تصور جمتانہیں،اس لیے ان کے ذہن میں خیالات بہت آتے ہیں،ایسے لوگوں کو یکسوئی حاصل کرنے کے واسطے تصور شیخ تجویز کیاگیا،کیوں کہ علاج بالضد ہوتا ہے،یعنی خیال کے دفع کرنے کے لیے دوسرے خیال کو ذہن میں جمالیا جائے گا خواہ وہ کوئی خیال ہو،پس ان خیالات مختلفہ کے دفع کرنے کے واسطے ہر دیکھی ہوئی چیز کا تصور کافی ہے جس پر بھی خیال جم سکے،لیکن ان سب خیالات میں شیخ کا تصور انفع ہے کہ وہ محبوب ہونے کی وجہ سے ذہن میں زیادہ جمے گا اس لیے دفع خیالات میں زیادہ مؤثر ہوگا ‘‘[1] تھانوی صاحب نے ایک دوسرے مقام پر بھی کچھ ایسی ہی توجیہ پیش کی ہے: ’’کسی نے خط میں لکھا کہ اگر آپ(تھانوی صاحب)کی صورت کا تصور کرلوں تونماز میں جی لگتا ہے،فرمایا:جائز ہے دوشرط سے:ایک یہ کہ اعتقاد میں مجھے حاضر ناظر نہ سمجھے،دوسری شرط یہ ہے کہ اس کی اطلاع کسی کو نہ دے۔یہ تصور خطرات کے علاج کے درجہ میں ہے،کیوں کہ یہ بھی توجہ الی اللہ ہونے کا ایک ذریعہ ہے،اس سے توجہ اوریکسوئی الی اللہ ہوگی،پس مقصود کا مقدمہ ہے مقصود نہیں۔‘‘ [2] مولانا حسین احمد مدنی لکھتے ہیں:
Flag Counter