Maktaba Wahhabi

84 - 120
ہے۔[1] ’’البہجۃ السنیۃ ‘‘ کے مؤلف نے اسے ’’مرید کو واصل کے درجہ تک پہنچادینے والا عمل‘‘ قرار دیا ہے۔[2] عبدالغنی رافعی اورشعرانی نے اسے ’’صوفیہ کے نزدیک آداب ذکر میں سب سے اہم چیز ‘‘ بتلایا ہے۔[3] ایک شیخ اس کے ترک کو اکبر الکبائر گردانتے ہوئے اپنے مرید سے فرماتے ہیں: ’’تمہارے حق میں اکبرالکبائر یہ ہے کہ تمہارے اوپر ایسی کوئی ساعت گزرے کہ میں تمہارے دل میں نہ رہوں،یہ وہ گناہ ہے جو تمہارے لیے دین ودنیا دونوں میں ضرررساں ہے ‘‘[4] شیخ سراج الدین رفاعی نے ’’تصور شیخ ‘‘ کو ’’مرید کے لازمی آداب ‘‘ میں شمار کیا ہے۔[5] الغرض ان تمام تصریحات کا خلاصہ یہی ہے کہ عالم تصوف میں تصور شیخ کے عمل کو کلیدی مقام حاصل ہے۔یہ راہ طریقت کا لازمی جزواورمرید کے لیے ایک واجبی اورناقابل فراموش عمل ہے،اس سے اعراض یاتساہل حرمان وخسران کا سبب اورباعث عقوبت ہے۔ مقاصد اورفوائد: ’’تصور شیخ ‘‘ کی منزلت وعظمت اورغیر معمولی اہمیت کا اندازہ توسطور بالا سے ہوچکا،اس عمل کے پیچھے کون سے مقاصد کار فرما ہوتے ہیں اوراس عمل کی انجام دہی سے ایک مریددین ودنیا میں کن فیوض وبرکات سے بہرہ ور ہوتا ہے سابقہ سطور میں اس چیز کی
Flag Counter