Maktaba Wahhabi

69 - 120
ہوچکا تھا،حضرت نانوتوی کے مزار پر حاضر ہوکر مراقب ہوئے،دیر تک مراقبے میں رہے،بعد میں فرمایا:میں نے مراقبہ میں حضرت نانوتوی سے خلافت کی تحریک میں حکام کی سختیوں کا تذکرہ کیا تو حضرت نے مولانا محمود الحسن کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ مولوی محمود حسن عرش خداوندی کو پکڑ کر اصرار کر رہے ہیں کہ انگریز کو جلد ہندوستان سے نکال دیا جائے‘‘[1] اسلامی موقف: ان تمام واقعات و حکایات میں اولیاء و مشائخ کے لیے جس لا محدود اختیار اور غیر معمولی تصرفات کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ اس عقیدہ توحید سے ذرا بھی میل نہیں کھاتے جو آیات قرآنی اور احادیث نبوی میں مذکور ہے:قرآن میں تو جگہ جگہ کہا گیا ہے کہ مشرکین عرب بھی ملک کا مدبر اور کائنات کا نظم و نسق چلانے والا اللہ ہی کو مانتے تھے،قرآن و حدیث میں انبیاء و رسل کے معجزات کا جہاں تذکرہ ملتا ہے وہاں اس حقیقت کا بھی بیان ہوتا ہے کہ یہ معجزے سراسر خدائی عطیہ ہیں اللہ اپنی مرضی سے جب چاہتا ہے انہیں عطا کرتا ہے،نہ یہ کہ انبیاء کے اختیار میں ہے کہ جب چاہیں معجزے پیش کردیں،امام الموحدین حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب مشرکین نے آگ میں پھینکا تو آپ نے اللہ کو یاد کیا اور فرمایا:حسبي اللّٰه ونعم الوکیل[2] یہ بھی غور کیجیے کہ﴿یَا نَارُ کُونِیْ بَرْداً وَسَلَاماً عَلَی إِبْرَاہِیْمَ﴾[3](اے آگ تو ابراہیم کے لیے ٹھنڈی اور باعث سلامت بن جا)خود ابراہیم علیہ السلام نے نہیں کہا بلکہ رب ابراہیم نے کہا کیوں کہ اس کا اختیار اوراس کی قدرت اسی کو حاصل ہے،اس نے صرف اپنے بارے میں اعلان فرمایا ہے کہ: ﴿إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْء ٍ إِذَا أَرَدْنَاہُ أَن نَّقُولَ لَہُ کُن فَیَکُون﴾[4] ’’ہم جب کسی چیز کا اردہ کرتے ہیں تو صرف ہمارا یہ کہہ دینا ہوتا ہے کہ ہوجا،پس وہ ہوجاتی ہے‘‘
Flag Counter