Maktaba Wahhabi

115 - 120
میں توسمجھا تھا کہ ہمارا قیام چھ سات مہینے ہوگا،اورمیں حضور سے مستفید ہوں گا،مگر آج ہماری فوج کے تبادلے کا حکم آگیا ہے اورکل کو ہمیں یہاں سے جاناہوگا،مجھے اپنی محرومی اورحضور کی مفارقت کا نہایت صدمہ ہے،سید صاحب اس کا ہاتھ پکڑ کر شاہ عبد القادر صاحب کے حجرے میں لے گئے اور آدھ گھنٹے یاپون گھنٹے حجرہ میں رہے،اس کے بعد سید صاحب تنہا حجرہ سے نکلے اورہم لوگوں سے فرمایا کہ ان کو باہر اٹھالاؤ اورہوادو،اوریہ کہہ کر تیز قدمی کے ساتھ دوسرے حجرے میں تشریف لے گئے،ہم لوگ جب اندر گئے ہیں تودیکھا کہ وہ شخص بالکل بے ہوش تھا،اسے حجرے سے باہر سہ دری میں لائے اورپانی کے چھینٹے دیے،پنڈول سونگھایا،کچھ دیر کے بعد اسے ہوش آیا تواس کی حالت یہ تھی کہ بالکل مست تھا اورآنکھیں پھٹی ہوئی تھیں اورکہتا تھا کہ واللہ باللہ جس طرف آنکھ اٹھاکر دیکھتاہوں سید صاحب ہی نظر آتے ہیں،وہ میری آنکھوں میں بھی ہیں،یہ الفاظ اس نے تین مرتبہ زور زور سے کہے،سید صاحب نے کواڑ کھول کر اپنا چہرہ نکالا اورزورسے فرمایا کہ خاموش اورمجھ کتے کی صورت اپنے سامنے سے منہدم کر،اوریہ الفاظ آپ نے بھی تین مرتبہ فرمائے،اس کا اثریہ ہوا کہ وہ بالکل اچھا ہوگیا۔یہ قصہ بیان فرماکر میرے استاد بیان فرماتے تھے کہ تصور دوقسم کا ہوتا ہے،ایک تووہ جو از خود ہو اوردوسرا وہ جوتصور کرنے سے ہو،سید صاحب جوتصور شیخ کو منع فرماتے تھے وہ وہ تصور تھا جو قصداً اور بہ تکلف کیا جائے اور جو تصور از خود ہو اس کو منع نہیں فرماتے تھے،کیوں کہ ایسے تصو رکا ثبوت حدیثوں سے ثابت ہے،چنانچہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ نہاکر نکلے،آپ اپنے بالوں کے دو حصے کرتے تھے اوران کے درمیان باریک مانگ تھی گویا میں دیکھ رہی ہوں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو۔نیز ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ لوگوں کو اپنے ہاتھ کے اشارے سے بٹھا رہے تھے اورفرماتے تھے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یوں ہی بٹھاتے تھے گویا کہ میں دیکھ رہاہوں جناب رسول اللہ کو،یہ تصور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا،مگر ازخود تھا نہ کہ بتکلف وبالقصد ‘‘[1]
Flag Counter