Maktaba Wahhabi

345 - 372
’’جوشخص اپنے رشتہ داروں سے اتفاق و اتحاد کو قائم رکھے گا اسے اللہ تعالیٰ اتفاق و اتحاد پر قائم رکھے گا اور جو اس کو تار تار کرے گا اسے تار تار کردیا جائے گا۔‘‘ 1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ((سبعۃ یظلھم اللّٰہ فی ظلہ یوم لا ظل الا ظلہ … رجلان تحایا فی اللّٰہ اجتما علیہ وتفرقا علیہ)) ۹۵؎ ’’سات آدمیوں کو اللہ تعالیٰ روزقیامت اپنے عرش عظیم کا سایہ نصیب فرمائے گا جس دن اس سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا… ان میں سے دو آدمی وہ ہیں جو آپس میں اللہ کے لیے محبت و الفت رکھتے ہیں ان کااتفاق و اتحاق اور اختلاف و انتشار محبت الٰہی پر منحصر ہوتاہے۔ 2۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((صلاۃ الجماعۃ تفضل صلاۃ الفذ بسبع و عشہرین درجۃ)) ۹۶؎ ’’آدمی کی جماعت کے ساتھ نماز اکیلے کی نماز سے ستائیس درجے افضلیت کی حامل ہے۔‘‘ ٭ حافظ عماد الدین ابن کثیر فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے آیت کریم﴿وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہ ﴾میں اجتماعیت اور اتفاق و اتحاد کادرس دیا ہے اور فرقہ واریت اور انتشار کو منع قرار دیا ہے اوربہت زیادہ احادیث اتفاق و اتحاد اور اجتماعیت کا درس دینے کے ساتھ ساتھ اختلاف و انتشار کو حرام اورممنوع قرار دیتی ہیں۔‘‘۹۷؎ قطع رحمی کی ممانعت قطع رحمی اور قطع تعلقی ایک غیر معمولی جرم ہے کیونکہ اس کا مرتکب اللہ تعالیٰ سے بدعہدی کرتا ہے۔جس کا عتاب اور سزا اسے دنیا و آخرت میں جھیلنا پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَمَا یُضِلُّ بِہٖ اِلَّاالْفَاسِقِیْنَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَہْدَاللّٰهِ مِنْ بَّعْدِ مِیْثَاقِہِ وَیَقْطَعُوْنَ مَا اَمَرَ اللّٰہ بِہٖ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِیْ الْاَرْضِ اُولٰئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ﴾۹۸؎ ’’اور وہ گمراہ صرف فاسقوں کو کرتاہے۔جو لوگ اللہ سے عہد کرنے کے بعد اسے توڑ دیتے ہیں اور جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیاہے انہیں قطع کرتے ہیں اور زمین میں فساد بپاکرتے ہیں یہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں۔‘‘ ٭ ڈاکٹر خالد علوی لکھتے ہیں: ’’قرآن و سنت نے اس رشتے کے لحاظ کو صلہ رحمی اور اسے نظر انداز کردینے کو قطع رحمی سے تعبیر کیاہے۔اسلام کی رو سے صلہ رحمی دنیا و آخرت کی فلاح کا باعث ہے اور قطع رحمی دنیا و آخرت کے خسارے کاباعث ہے۔‘‘۹۹؎ صلح کرنا خاندان اور رشتہ داروں کوآپس میں قطع کلامی کے مرحلے سے قبل ہی ان کے مسائل و مصائب اور مشکلات کا حل فرما دینا چاہئے۔اگر بات اورمعاملہ حد سے گزر جائے اور قطع رحمی اور قطعی تعلقی ہوجائے تو پھر سربراہ خاندان حکمت و دانائی کے ساتھ افراد خاندان کا اتصال اورصلح کرادے۔قرآن و سنت کاتقاضا اور روح یہی ہے۔ 1۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَاِنْ طَائِفٰتٰنِ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا﴾۱۰۰؎
Flag Counter