Maktaba Wahhabi

298 - 372
استدلالی نقطہ فضیلۃ الشیخ سید سابق مصری نے مذکورہ بالا ترتیب میں جس رشتے کو اوّلیت کا مقام دیاہے وہ نانی کا رشتہ ہے جس کو ننھیال میں بلند مقام کے حصول کے ساتھ مرکزی کردار بھی حاصل ہے۔چونکہ نانی اور نانے کی اولاد خواہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ان کا مرکزو محور نانی اور نانے کا گھر ہوتاہے۔خوشی و غمی کے حالات و لمحات میں تمام بہن بھائی انہی کے گھر اجتماع کی صورت میں ملتے ہیں او ران(یعنی نانی او رنانے) کی آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہوتے ہیں اور نانی کے بعد خالہ کو سید سابق مصری نے ترتیب دیا ہے چونکہ ماں جیسی عظیم ہستی ان کی وفات کے بعد دنیا میں تلاش کرنا محال ہوتا ہے اس لئے ماں جیسے اوصاف خالہ ہی میں پائے جاسکتے ہیں کیونکہ وہ اکٹھی پرورش پاتی رہیں اور خونی رشتہ ہونے کی بنا پر خالہ ماں سے کافی حد تک ملتی جلتی ہے اس بنا پر شریعت مطہرہ ماں کے بعد خالہ کو بچے کی پرورش و دیگر معاملات سونپتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں روایت نقل کرتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے جانے لگے۔حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اے چچا،اے چچا کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل پڑی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا۔یہ آپ کے چچا کی بیٹی ہے تو انہوں نے اسے اٹھا لیا۔تو حضرت زید رضی اللہ عنہ،حضرت علی رضی اللہ عنہ،اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے درمیان جھگڑا ہونے لگا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اس کا زیادہ حقدار ہوں اس لئے کہ یہ میرے چچا کی دختر ہے اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح کہا اور مزید یہ کہ اس کی خالہ میری بیوی ہے لہٰذا میں اس کا سب سے زیادہ حقدار ہوں اور حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کہا میں اس کا زیادہ حقدار ہوں اس لئے کہ یہ میرے بھائی کی بیٹی ہے ’’فقضیٰ لھا النبی!لخالتھا وقال الخالۃ بمنزلۃ الام وقال لعلی انت منی وانا منک وقال لجعفر اشبھت خلقی و خلقی وقال لزید انت اخونا و مولانا‘‘۶۴؎ ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالہ کے حق میں فیصلہ کردیا اور آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا خالہ ماں کی قائم مقام ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہوں او رحضرت جعفر رضی اللہ عنہ کو فرمایا تو میرے جیسا ہے صورت اور سیرت کے لحاظ سے اور حضرت زید رضی اللہ عنہ کو فرمایا تو میرا دوست او ربھائی ہے۔‘‘ مذکورہ حدیث صحیح بخاری میں دو مقامات پر،سنن ابی داؤد میں ’’من احق بالولد‘‘ باب کے تحت اور صحیح ابن حبان میں’’باب الموادعۃ والمھادنۃ‘‘ کے تحت اور سنن وجامع ترمذی میں ’’باب ماجاء فی برالخالۃ‘‘ کے تحت اور دیگر کئی کتب احادیث میں یہ حدیث موجود ہے۔ سنن دارمی میں ہے: حضرت مسروق رحمہ اللہ تابعی حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں: ’’الخالۃ بمنزلہ الأم والعمۃ بمنزلۃ الأب و بنت الأخ بمنزلہ الأخ و کل رحم بمنزلۃ رحمہ التی یدل بھا إذا لم یکن وارث ذوقرابۃ‘‘۶۵؎ ’’خالہ ماں کے قائم مقام ہے او رپھوپھی باپ کے قائم مقام ہے اور بھائی کی بیٹی بھائی کے قائم مقام ہے او رہر رشتہ دار اپنے رشتہ دار کا ولی ہے۔‘‘ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فیصلہ سنن دارقطنی میں ہے: ’’حضرت زیاد بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھی سے سوال کیا:
Flag Counter