Maktaba Wahhabi

294 - 372
اس کی نافرمانی اور گستاخی کر کے اسے ناراض کر بیٹھو گے توجہنم کی سزا پاؤ گے۔ سب سے زیادہ حسن سلوک کاحقدار کون؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((إِنَّ اللّٰهَ يُوصِيكُمْ بِأُمَّهَاتِكُمْ ثَلَاثًا،إِنَّ اللّٰهَ يُوصِيكُمْ بِآبَائِكُمْ)) ۵۶؎ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ تمہیں یہ وصیت کرتاہےکہ تم اپنی ماؤں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ تمہیں وصیت کرتےہیں کہ تم اپنے باپوں کو ساتھ اچھا سلوک کرو۔‘‘ مذکورہ بالا احادیث میں والدہ کو والد پرجو ترجیح دی گئی ہےاس کی وجہ سمجھنا کوئی مشکل بات نہیں اولاد کی پیدائش اور پرورش کےسلسلہ میں جتنی مشکلات ایک ماں اٹھاتی ہے اتنی باپ نہیں اٹھاتا۔ہر بچے کو نو ماہ پیٹ میں اٹھانا،زندگی کےمراحل طے کر کے اسےجنم دینا دوسال تک اپنا دودھ پلانا بچے کا پیشاب پاخانہ صاف کرنا،گرمی اور سردی میں موسمی شدت خود برداشت کرکے اسے ہر ممکنہ راحت پہنچانا،ایسی دشوار چیزیں ہیں جن کا سامنا ایک ماں ہی کر سکتی ہے۔ظاہر ہےک انصاف اسی بات میں ہوسکتا ہے کہ ان مشقتوں کوبرداشت کرنے کی وجہ سے ماں کاحق خدمت والد کے مقابلے میں زیادہ ہوتاہے اسی انصاف کے پیش نظراسلام میں والدہ کےحق خدمت والد کے مقابلےمیں تین گنا زیادہ رکھا گیاہے۔ والدہ کے تعلقات کی نوعیت اس کائنات میں آدمی کےکئی ایک رشتے ہوتے ہیں۔کہیں وہ بیٹاہوتا ہے کہیں باپ،کہیں داماد بنتا ہے کہیں سسر،کہیں وہ شاگرد ہوتاہے کہیں استاد اسی طرح عورت کے بھی کئی رشتے ہیں کہیں وہ ماں کادرجہ رکھتی ہےکہیں وہ بہوہوتی ہےتوکہیں وہ ساس بن جاتی ہے۔کسی کی خالہ اورکسی کی پھوپھی کسی کی بہن اورکسی کی بیوی ہوتی ہے۔اسلام ہر پہلو سے اس کادائرہ کار کا تعین کرتاہے جس طرح والدہ کا احترام فرض ہے اسی طرح والدہ کےدیگر رشتہ داروں کا احترام بھی ضروری ہے۔ والدہ کی رشتہ داریاں والدہ کی رشتہ داریں دو طرح کی ہیں: 1۔ نسبی 2۔سببی 1۔نسبی رشتہ داریاں نسب کالغوی معنی قرابت ہے۔اور اس سے مراد قریب اور بعید کے وہ تمام رشتہ دار ہیں جن کا تعلق نسب سےہوتا ہے اس سبب کی بناء پر ایک رشتہ دار دوسرے رشتے داروں کا وارث بنتا ہے۔ والدہ کےنسبی رشتوں کی تین جہات ہیں: 1۔ اصول 2۔فروغ 3۔اطراف
Flag Counter