Maktaba Wahhabi

259 - 372
مذکورہ شرائط کا گہرا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ پہلی شرط ہی اہم ترین شرط ہے جبکہ بقیہ شرائط کا ہر حال اور جملہ معاملات میں لحاظ کرنا ضرور ی نہیں ہے اور یہ شرائط ہمارے اس مسئلہ کے ساتھ خاص نہیں ہیں۔ خلاصہ کلام اگر سابقہ اقوال اور دلائل کو بنظر عمیق دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ تیسر ا قول اپنی شروط و قیود سے پہلے کے موافق ہے۔کیونکہ انہوں نے باپ کے لیے بیٹے کے مال سے لینے کے مطلق جواز کو چند شرائط کے ساتھ مقید کیا ہے اور بیٹے کو ضرر نہ پہچنے کی قید لگائی ہے۔ ٭ جمہور کے قول سے واضح ہوتا ہے کہ باپ بلاضرورت اپنے بیٹے کے مال سے نہیں لے سکتا۔اس قول میں جمہور نے طرفین(باپ،بیٹے ) دونوں کی رعایت رکھی ہے۔باپ کا حق بوقت ضرورت،نفقہ حاصل کرنے کے ذریعے محفوظ ہے اور اس قول میں خاندانی مشکلات کا حل اور ہر فریق کو اپنے ایمان کی زیادتی اور اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر قناعت کرنے کی دعوت دی ہے۔۔اسی قول سے دل مطمئن ہو جاتا ہے۔اور اسی میں مذکورہ حکم و اسرار سے سینہ کھل جاتا ہے اور عقل پر سکون ہو جاتی ہے۔ ٭ اس بنا پر اگر باپ بیٹے کے مال کو اپنی ملکیت بنانے اور اپنی ضرورت سے زیادہ حاصل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔اور بیٹا اس مطالبے کو مسترد کر دیتا ہے تو وہ بیٹا نافرمان اور گنہگار نہیں ہو گا۔کیو نکہ بقدر ضرورت ان پر خرچ کر کے وہ اپنا فریضہ ادا کر رہا ہے۔اور ان کے حق میں کوتاہی نہیں کر رہا۔ ٭ یہ ایک پہلو سے ہے،اگر دوسرے پہلو سے دیکھا جائے تو یہ اور واضح ہوتا ہے کہ علمأ کرام کا اختلاف رحمت ہے۔مثال کے طور پر اگر معاملہ قاضی کے پاس عدالت میں چلا جاتا ہے تو قاضی دلائل،شہادات اور حالات کو سامنے رکھ کر علماء کے ان اقوال میں سے کسی احسن اور موافق حالت کو دیکھ کر فیصلہ دے سکتا ہے۔ ٭ باپ کے لیے نصیحت ہے کہ وہ نیکی پر اپنے بیٹے کا تعاون کرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ رحم اللّٰہ ولداً اعان ولدہ علی برہ‘‘۳۱؎ تاکہ بیٹا بھی اس کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک سے پیش آئے،والد کی طرف سے نیکی طبعی امر ہے۔جبکہ بیٹا اس کا مکلف ہے۔ ٭ اس میں بیٹے کو بھی نصیحت ہے کہ وہ باپ کے ساتھ نیکی اور حسن و سلوک سے پیش آئے ان کے لیے جود و سخا کے ہاتھ کھول دے اور ان پر خرچ کرنے میں کنجوسی نہ کرے تنگی اور احسان محسوس کیے بغیر بلامطالبہ ان کو دیتا رہے خصوصا ً جب اللہ تعالیٰ نے رزق کی وسعت دی ہو بلکہ والدین کے ساتھ احسان کرنا زیادتی رزق اور طوالت عمر کا سبب ہے جیسا کہ مشہور احادیث میں موجود ہے۔ ٭ اسی طرح بیٹا جب محسوس کرے کہ اس کے والدین اس کے مال سے تو قع رکھتے ہیں اور وہ بلاعذر اس میں سے لینا چاہتے ہیں تو اسے چاہیے کہ وہ ان کے ساتھ حکیمانہ راستہ اختیار کرے،ان کے ساتھ نیکی کرے اور ان کو غصہ دلانے کا سبب نہ بنے کیونکہ دانا شخص کبھی و سیلوں کا راستہ ختم نہیں کرتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو پیش نظر رکھے۔ ’’لایجزی ولد والدا إلا أن یجدہ مملوکا فیشتریہ فیعتقہ‘‘ ۳۲؎ ’’ کوئی شخص بھی اپنے والد کا حق ادا نہیں کر سکتا الا کہ وہ اپنے والد کو غلام پائے تو خرید کر اس کو آزاد کر دے۔‘‘ ٭ نیک بیٹے کو چاہیے کہ وہ والدین کی رضا میں اللہ تعالیٰ کی رضا تلاش کرے جیسا کہ سیدنا معا ذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
Flag Counter