Maktaba Wahhabi

246 - 372
اپنے بیٹے کو نماز کی حالت میں بلایااور کہا: ’’ یا جریح أنا أمک کلمنی فصادفتہ یصلی فقال:اللھم أمی و صلاتی قال فاختار صلاتہ فرجعت ثم عادت فی الثانیۃ فقالت:یا جریج أنا أمک فکلمنی فقال:اللھم أمی و صلاتی فاختار صلاتہ فقالت:اللھم إن ھذا جریج وہو ابنی وإنی کلمتہ فأبی أن یکلمنی اللھم لا تمتہ حتی تریہ المومسات قال ولو دعت علیہ أن یفتن لفتن ‘‘۳۲؎ ’’ اے جریج(بیٹا) میں تیری ماں ہوں،مجھ سے بات کر۔جریج اس وقت نماز میں تھا۔اس نے دل میں سوچا،اے اللہ!میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں۔چنانچہ وہ اپنی نماز میں ہی رہا۔اس کی ماں لوٹ گئی دوسرے دن پھر آئی اور بولی:اے جریج،میں تیری ماں ہوں،مجھ سے بات کر۔وہ اپنے دل میں کہنے لگا:میرے رب،میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز کی حالت میں ہوں۔بالآخر وہ نمازپڑھتا گیا تو وہ بولی:یا اللہ یہ جریج تو میرا بیٹا ہے میں نے اس سے بات کی لیکن اس نے بات کرنے سے انکا رکیا۔یااللہ اس کو فوت نہ کر جب تک کہ یہ بدکار عورتوں کا سامنا نہ کرلے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اگر اس کی ماں اس وقت کسی بھی فتنے یا آزمائش کی دعا کرتی تو جریج اس فتنے میں مبتلا ہوجاتا۔‘‘ صحیح مسلم میں اس حدیث کے بعد اگلی حدیث میں اس آزمائش کابھی تذکرہ ہے جو ماں کی بددعا کے نتیجے میں جریج پر واقع ہوئی۔ والد کی اطاعت،جائز کاموں میں امر لازم ہے حتیٰ کہ والد اگر بیٹے کو طلاق کا حکم دے،تو بیٹے کو طلاق دینا ہوگی۔ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جس کو محدثین نے ’’باپ بیٹے کو اس کی بیوی کو طلاق دینے کا حکم دے تو باپ کا حکم ماننا پڑے گا‘‘ کے عنوان کے تحت متعدد کتابوں میں روایت کیا ہے،وہ فرماتے ہیں: ’’ کانت تحتی امرأۃ و کنت أحبھا وکان أبی یبغضھا فذکر ذلک عمر للنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأمر أن أطلقھا فطلقتھا ‘‘ ۳۳؎ ’’ میرے نکاح میں ایک عورت تھی،جس سے میں محبت کرتا تھا اور حضرت عمررضی اللہ عنہ(والد) اس(عورت) کو بُرا جانتے تھے۔چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ(میں اس کو طلاق دینے کاکہتا اور یہ اپنی بیوی کو طلاق نہیں دیتا) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ اس کو طلاق دے دو تو میں نے طلاق دے دی۔‘‘ اسی طرح ایک شخص کو اس کے باپ نے حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے تو اس شخص نے نذر مان لی کہ اگر وہ اپنی عورت کو طلاق دے تو اس کو سو غلام آزاد کرنے لازم ہوں گے۔پھر وہ شخص ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور دریافت کیا تو آپ نے جواب میں فرمایا: ’’ إنی سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول:الوالد أوسط أبواب الجنۃ فإن شئت فحافظ علی الباب أو اترک ‘‘ ۳۴؎ ’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے۔اگر تو چاہے تو اس دروازے کی حفاظت کرلے یا اس کو چھوڑ دے۔‘‘ والد کی اطاعت اولاد پر لازمی ہے الا یہ کہ کوئی خلاف شرع کام ہو،جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ذکر کرتے ہیں:’’ لاطاعۃ فی معصیۃ إنما الطاعۃ فی المعروف‘‘۳۵؎ ’’ اللہ کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہ کرنا چاہئے۔اطاعت اسی کام میں لازمی ہے جو شریعت کے موافق ہو۔(یعنی اطاعت صرف جائز کاموں میں ہے)‘‘
Flag Counter