Maktaba Wahhabi

213 - 372
اولاد کا نفقہ اور کفالت والد کے ذمہ ہے صحیح بخاری میں عنوان ’’اہل و عیال کانفقہ،والد کے ذمہ ہے‘‘ کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ أفضل الصدقۃ ما ترک غنی،والید العلیا خیر من الید السفلی،وابدأ بمن تعول،تقول المرأۃ:إما أن تطعمنی،وإما أن تطلقنی،ویقول العبد:أطمعنی واستعملنی و یقول الابن:أطعمنی إلی من تدعنی‘‘۱؎ ’’بہترین صدقہ وہ ہے جس کے بعدآدمی مال دار رہے اور اوپر والا(دینے والا)ہاتھ،نیچے والے(لینے والے) ہاتھ سے بہتر ہے۔اور پہلے ان کو دے جو تیرے زیر کفالت ہیں۔بیوی کہتی ہے:یا تو مجھے کھانے کو دو،وگرنہ طلاق دے دو۔اور غلام کہتا ہے:مجھے کھانے کو دو اور مجھ سے کام لو اور بیٹا کہتا ہے:مجھے کھلاؤ جب تک کہ مجھے چھوڑ نہیں دیتے۔‘‘ ٭ اس حدیث کی تشریح میں علامہ ابن المنذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کچھ علماء نے تمام اولاد کے لئے(مذکر ہو یا مونث،بالغ ہوں یا نابالغ) والد پر ان کا نفقہ لازمی قرار دیاہے اور کہا ہے مذکر اولاد کانفقہ اس وقت تک واجب ہے جب وہ بقدر ضرورت مال رکھتے ہوں جبکہ جمہور علماء کاقول یہ ہے کہ باپ پر مذکر اولاد کے بالغ ہونے تک اور مونث کے نکاح تک ان کا نفقہ اور اخراجات(کفالت)واجب ہیں۔اس کے بعد باپ کی ذمہ داری نہیں۔ابن منذر رحمہ اللہ کے الفاظ یہ ہیں: ’’ اختلف فی نفقۃ من بلغ من الأولاد ولا مال لہ ولا کسب فأوجبت طائفۃ المنفقۃ لجمیع الأولاد أطفالا کانوا أو بالغین،إناثا و ذکرانا،إذا لم یکن لھم أموال یستغنون بھا،و ذھب الجمھور علی أن الواجب أن ینفق علیھم حتی یبلغ الذکر أو تتزوج الأنثی ثم لا نفقۃ علی الأب إلا أن کانوا زمنی‘‘۲؎ اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ہند بنت عتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا ’’یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن أبا سفیان رجل مِسِّیْک فھل علی حرج أن أطعم من الذی لہ عیالنا فقال:لا إلا بالمعروف‘‘۳؎ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابو سفیان کنجوس آدمی ہے،کیا اس میں کوئی حرج تو نہیں کہ میں اس کے مال میں سے اپنے بچوں کے اوپر کچھ خرچ کرلوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہیں کوئی حرج نہیں،اگر تم عرف کے مطابق بقدر ضرورت خرچ کرو۔‘‘ اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’اگر باپ نفقہ نہ دے تو بیوی اسکے علم میں لائے بغیر اپنے لئے اور اولاد کے خرچہ کیلئے بقدر ضرورت خاوند کے مال سے لے سکتی ہے۔‘‘ کے عنوان کے تحت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی ہند زوجہ ابوسفیان کا ایک اور واقعہ ذکر کرتے ہیں: ’’أن ہند بنت عتبۃ قالت یارسول اللّٰہ:إن أبا سفیان رجل شحیح،ولیس یعطینی ما یکفینی وولدی إلا ما أخذت منہ وھو لا یعلم فقال:خذی ما یکفیک وولدک بالمعروف‘‘۴؎ ’’ہند بنت عتبہ نے عر ض کیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم،ابو سفیان کنجوس آدمی ہے،اور ضرورت کے مطابق مجھے اورمیری اولاد کو خرچ نہیں دیتا،یا پھر میں اسے بتائے بغیر اس کے مال میں سے خود لے لوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم عرف کے مطابق اپنی اور اپنی اولاد کی ضرورت کے بقدر اس کے مال میں سے لے سکتی ہو۔‘‘
Flag Counter