Maktaba Wahhabi

160 - 372
’’اور تم اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور سابق زمانۂ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار کر کے باہر نہ نکلو۔‘‘ جب خاوند عورت کو کسی ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دے تو عورت کو چاہیے کہ شرم و حیا کا لباس پہن کر باہر نکلے۔بناؤ سنگھار کر کے باہر نہ نکلے تاکہ اس کی زیب و زینت،خائن آنکھوں کی توجہ کا باعث نہ بن جائے۔بارونق سڑکوں اور بازاروں کی بجائے خالی راستوں پر سفر کرے۔اگر وہ خاوند کی مرضی کے بغیر،بلاضرورت گھر سے باہر نکلے گی تو گناہ گار ہو گی۔اسی طرح گھر سے باہر نکلنے کے علاوہ گھر کی چھت پر یا اونچی جگہوں پر بغیر خاوند کی اجازت کے نہ چڑھے اور پڑوسیوں کے ہاں بھی خاوند کی اجازت سے ہی جائے۔ ضرورت کے تحت گھر سے نکلنے میں،عورت کا ایک تو نماز کے لیے نکلنا ہے‘ کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((لا تمنعوا إماء اللّٰہ مساجد اللّٰہ )) ۲۱؎ ’’اللہ کی لونڈیوں کو مسجدوں سے مت روکو۔‘‘ اسی طرح عورت کا گاہے بگاہے اپنے والدین سے ملنے کے لیے نکلنا بھی ضرورت کے تحت آتا ہے اور خاوند کو اُس سے بھی منع نہیں کرنا چاہیے۔ عورت مسجد یا اس کے علاوہ کسی جگہ کے ارادے سے گھر سے نکلے تو زیب و زینت اختیار نہ کرے اور نہ ہی خوشبو لگائے ‘کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((إذا شھدت إحداکن الْعشاء فلا تطیب تلک اللیلۃ )) ۲۲؎ ’’جب تم عورتوں میں سے کوئی عشاء کی نماز کے لیے نکلے تو اُس رات خوشبو نہ لگائے۔‘‘ امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی یہ حدیث نقل کی ہے اور اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔ابن حبان نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث نقل کی ہے: ((اَلْمَرْاَۃُ عَوْرَۃٌ‘ فَاِذَا خَرَجَتِ اسْتَشْرَفَھَا الشَّیْطَانُ)) ۲۳؎ ’’عورت چھپانے کی چیز ہے،جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے۔‘‘ اس حدیث میں ابن حبان نے یہ الفاظ زیادہ بیان کیے ہیں: ((وَاَقْرَبُ مَا تَکُوْنُ مِنْ رَّبِّھَا اِذَا ھِیَ فِیْ قَعْرِ بَیْتِھَا)) ۲۴؎ ’’اور عورت اپنے ربّ کے سب سے زیادہ قریب اُس وقت ہوتی ہے جب کہ وہ اپنے گھر میں گوشہ نشین ہو جائے۔‘‘ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((اَیُّمَا امْرَاَۃٍ اسْتَعْ۔طَرَتْ ‘ فَخَرَجَتْ‘ فَمَرَّتْ عَلٰی قَوْمٍ لِیَجِدُوْا رِیْحَھَا فَھِیَ زَانِیَۃٌ وَکُلُّ عَیْنٍ زَانِیَۃٌ)) ۲۵؎ ’’کوئی عورت جب خوشبو لگائے‘ پھر گھر سے نکلے اور کسی قوم پر سے اُس کا گزر ہو تو وہ عورت زانیہ وبدکار ہے اور اس کی طرف اٹھنے والی ہر آنکھ بھی زانیہ ہے۔‘‘ یہ توواضح ہے اور یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمان عورت کے اپنے گھر میں ٹھہرنے سے یہ مراد نہیں ہے کہ اسکو گھر میں قید کر دیا گیا ہے‘ جیسا کہ بعض دشمنانِ اسلام اس بات کا پروپیگنڈا کرتے ہیں‘ بلکہ اسکے برعکس عورت کو گھر میں ٹھہرنے کا حکم اسلام نے اس لیے دیا ہے تاکہ اسکی حفاظت ہواور اُسکی عزت و تکریم بھی ہو تاکہ وہ دوسروں کے ہاں ملازمت کر کے ذلیل ہونیکی بجائے،گھر کی مالکن بن کر رہے۔
Flag Counter