Maktaba Wahhabi

114 - 372
عداوت اورغیرت کی وجہ سے فساد پیدا ہوتاہے۔اورانہیں ایک ہی گھر میں رکھنا گویا انہیں ایک دوسرے کے خلاف لڑائی جھگڑے پر ابھارنے کے مترادف ہے۔‘‘ جسمانی اورجنسی استطاعت کافقدان جسمانی اورجنسی استطاعت کا فقدان ایک ایسا مسئلہ ہے کہ بیوی باقی تمام حقوق اوراشیاء بالائے طاق رکھتے ہوئے خاوند کے گھر میں زندگی بسر کر سکتی ہے لیکن مذکورہ استطاعت کے فقدان سے عورت کبھی بھی خاوند کے ہاں رہنے کے لئے رضامند نہیں ہوگی اِلّایہ کہ وہ معسرہو اوراسی گھر میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو یاوہ شباب کی حالت کوکراس کر چکی ہو۔اس لیے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’یا معشرالشباب من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج فانہ أغض للبصر وأحصن للفرج فانہ لہ وجاء ‘‘۵۰؎ ’’اے نوجوانوں کی جماعت!تم میں سے جوکوئی ازدواجی حقوق پورے کرنے کی صلاحیت اوراستطاعت رکھتاہے تو اسے چاہیے کہ وہ شادی کرلے کیونکہ یہ آنکھوں کوجھکا دینے والی اورشرم گاہوں کی حفاظت کرنے والی ہے پس یہ اس کے لیے ڈھال ہے۔‘‘ حدیث مذکورہ میں جو اہم چیز بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ جب تک انسان میں جسمانی اور جنسی۔(یعنی وطی اورجماع کرنے کی) استطاعت نہ ہوشادی کا سوچنا بھی نہیں چاہیے کیونکہ صنف نازک اورجنس مخالف کے بھی جذبات ہوتے ہیں۔اگر وہ اپنے جذبات،نفسانی اورجنسی خواہشات مجروح ہوتے دیکھتی ہے تووہ ایک خاوند تودرکنار ارد گرد کی اطراف واکناف میں بسنے والی نسل نو،خواہ مرد ہوں یا عورتیں،ان کو تباہی کے کنارے لے جاتی ہے۔جس کا رزلٹ اورنتیجہ یہ ہوتاہے کہ خاندان اورنسب نامے اپنے ہموار راستے سے ہٹتے ہوئے کھائی میں جاگرتے ہیں۔لہذا ایسی صورتحال میں تعدد ازواج کی سنت پر عمل کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ چند آراء 1۔ مصر کے ایک متبحر عالم سید محمد رشید رضانے تعدد ازواج کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھاہے کہ جب تعدد ازواج میں نفرتوں اورمفاسد کی کثرت ہو۔توایک سے زائد بیوی کونکاح میں رکھنے سے منع کیا جاسکتاہے۔چنانچہ جب یہ امر ثابت ہوجائے کہ عوام الناس ایک سے زائد بیویاں ہونے کی صورت میں ان کے درمیان عدل نہیں کرتے تو اولی الامر کوتعدد ازواج پر پابندی لگانے کا اختیار ہے۔اس کی بنیاد اس اصول پر قائم ہے کہ وہ ایک مباح فعل کرنے سے باز رہے جس سے فساد پیدا ہوتاہے کیونکہ مصلحت کا اصول فسادکو باقی رکھنے سے بہتر ہے۔نیز یہ کہ زمانہ کے تغیر سے حکم میں واقع ہو جاتا ہے بشرطیکہ وہ حکم شرعی فرضیت کے درجے کا نہ ہو۔ 2۔ مصر کے ایک اورمشہور عالم مفتی محمد عبدہ ’ تفسیر المنار‘ میں تعدد ازواج کے موضوع پر لکھتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں تعدد ازواج کے بہت زیادہ فوائد تھے۔جن میں سے سب سے اہم فائدہ یہ تھا کہ اس کے ذریعے سے نسبی اورسسرالی تعلقات کے قیام کی وجہ سے عصبیت کوتقویت حاصل ہوتی ہے۔اوراس زمانے میں اس سے وہ نقصانات پیش نہیں آتے تھے۔جو آج پیش آرہے ہیں۔کیونکہ اس زمانے میں عورتوں اورمردوں،دونوں کے دلوں میں دینی شعور کافی مستحکم ہوتاہے۔چنانچہ سوتن کا ضرر سوتن تک ہی محدود رہتاتھا۔لیکن آج صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ ہر سوتن کا ضرر اس کی اولاد،ماں،باپ اورپورے خاندان تک پھیل رہاہے۔چنانچہ سوتنیں ان کے درمیان حسد اوربغض و عداوت کی آگ بھڑکاتی ہیں اوراپنے خاوندوں کوپہلی بیوی کے حقوق مارنے پر اکساتی ہیں۔اور آدمی اپنی محبوب ترین بیوی کے اشارہ ابرو پر رقص کرتارہتاہے۔اوراس طرح اس کا فساد پورے خاندان میں سرایت کرجاتاہے۔اگر عورتوں کی دینی اعتبار سے صحیح
Flag Counter