Maktaba Wahhabi

112 - 372
شادی رچائی جائے اورشادی کے بعد عائدہونے والی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے حوالے سے نیت میں فتور ہو توپھر یہ قابل تنفیرجرم ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَائِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ کِتٰبَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَاُحِلَّ لَکُمْ مَاوَرَائَ ذٰلِکُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ﴾۴۳؎ ’’اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں جو کسی دوسرے کے نکاح میں ہوں،البتہ ایسی عورتیں اس سے مستثنی ہیں جو(جنگ میں) تمہارے ہاتھ آئیں یہ اللہ کا قانون ہے جس کی پابندی تم پر لازم کردی گئی ہے۔ان کے ماسوا جتنی عورتیں ہیں انہیں اپنے اموال کے سے حاصل کرنا تمہارے لئے حلال کردیا گیا ہے بشرطیکہ حصار نکاح میں اسے محفوظ کرو نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو۔‘‘ گویا اسلام میں شادی ایک ذمہ داری سمجھ کر کی جاتی ہے۔نہ کہ محض شہوت رانی کی غر ض سے۔ 4۔عدل وانصاف پہلی تین شرائط کا تعلق شادی سے پہلے اورمذکورہ شرط شادی کے بعد پیش آتی ہے۔یعنی مرد اگر پہلے والی تین شرائط پر پورا اترآئے تواسے شادی سے نہیں روکا جاسکتا۔البتہ ایک سے زائد بیویوں کی صورت میں وہ عدل وانصاف اورباہمی مساوات کا رویہ اپنائے،میل جول،رہائش وزیبائش،نان ونفقہ اورازدواجی تعلقات وغیرہ سے متعلق وہ تمام امور جن میں مساوات عملا ممکن ہے،ان میں مساویانہ رویہ اختیار کرے یعنی جیسی رہائش ایک بیوی کے لیے ہو ویسی ہی رہائش دوسری بیوی کے لیے ہونی چاہیے۔اورجیسے لباس،کھانا پینا ایک کے لیے ہو،تمام بیویوں کے لیے ایساہی ہوناچاہیے۔البتہ ظاہری مساوات کے علاوہ قلبی میلان اس سے مستثنی ہے۔ یادرہے کہ معاشی خوشحالی ہونے کے باوجود اگر کسی شخص کوایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کے بعد ان کے درمیان عدل وانصاف نہ ہونے کا ڈر ہو توایسی صورت حال میں اللہ تعالیٰ نے ایک بیو ی سے زیادہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَائِ مَثْنٰی وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً﴾۴۴؎ ’’جوعورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو دو،تین تین،چار چار سے نکاح کر لو لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو۔‘‘ علاوہ ازیں اگر کوئی شخص ایک سے زائد شادیاں کرنے کے باوجود ان کے درمیان عدل وانصاف نہیں کرتاتورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے لئے سخت وعید سنائی ہے۔ ’’وہ شخص قیامت کے روز اس حال میں اللہ کے سامنے حاضر ہو گا کہ اس کے جسم کا ایک حصہ(ساقط)ہوگا۔‘‘۴۵؎ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْ اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَائِ وَلَوْحَرَصْتُمْ فَلَاتَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْہَا کَالْمُعَلَّقَۃ وَاِنْ تُصْلِحُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہ غَفُوْرٌ الرَّحِیْم﴾۴۶؎ ’’تم سے یہ کبھی نہ ہوسکے گاکہ تم اپنی تمام بیویوں میں ہرطرح عدل کرو اگرچہ تم اس کی کتنی ہی آرزو کرو۔پس بالکل ہی ایک طرف مائل ہو کر دوسری کوادھر لٹکی ہوئی نہ چھوڑو اوراگر تم اصلاح کرو۔اور احتیاط کرو توبے شک اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اوررحمت والاہے۔‘‘
Flag Counter