Maktaba Wahhabi

105 - 372
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت حسن رضی اللہ عنہ تواس کثرت سے شادیاں کرنے لگے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اہل کوفہ سے کہنا پڑا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کواپنی بیٹیاں نہ دیا کرو۔۲۳؎ خلفاء راشدین کا عمل تمام صحابہ کی تائید ہی سے تھا۔کسی صحابی سے بھی منقول نہیں ہے کہ اس نے اس معاملے میں کبھی اختلاف کیا ہو۔صحابہ کرام کا اس معاملے پراجماع تھا نہ صرف صحابہ کرام کا بلکہ بعد میں آنے والے تابعین اوراہل علم کا بھی اس امر پر اتفاق ہے۔ اجماع امت قرون اولی اوربعد ازاں اہل علم کا اس امر پر اجماع رہاہے کہ مرد ایک سے زیادہ شادیاں کرسکتاہے۔جن کی آخری وقت میں آخری حد چار بیویاں ہے۔ ٭ شمس الدین السرخسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ولم ینقل عن أحد فی حیاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولابعدہ إلی یومنا ہذا أنہ جمع بین أکثر من أربع نسوۃ نکاحا ‘‘ ۲۴؎ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کسی ایک سے بھی منقول نہیں ہے اوران کے بعد آج تک ثابت نہیں ہے کہ کسی نے اپنے نکاح میں چار سے زائدعورتوں کو جمع کیاہو۔‘‘ ٭ ابوعبداللہ القرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وہذا کلہ جہل باللسان والسنۃ ومخالفۃ لاجماع الأمۃ إذ لم یسمع عن أحد من الصحابۃ والتابعین انہ اجمع فی عصمتہ اکثر من اربع‘‘ ۲۵؎؎ ’’جو اقوال وآرا ء چار سے زائد نکاح کے بارے میں ہیں وہ سب لغت اورسنت لاعلمی کیوجہ سے ہیں اور امت کے اجماع کے مخالف ہیں کیونکہ نہ کسی صحابی سے ایسا سناگیا اورنہ کسی تابعی سے،کہ اس نے اپنے عقد میں چار سے زیادہ بیویاں جمع کی ہوں۔‘‘ بعض روافض کا خیال ہے کہ مرد بیک وقت نوتک عورتیں جمع کرسکتاہے۔محدثین وفقہاء اس کی تردید توضرور کرتے ہیں۔مگر چار تک جواز میں کسی کا قطعا ًکوئی اختلاف نہیں ہے۔ ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’(باب لایزوج أکثر من أربع) اما حکم الترجمۃ فبالاجماع إلا قول من لایعید بخلافۃ من رافضی ونحوہ‘‘۲۶؎ صحیح بخاری میں باب ہے کہ کوئی بھی چار سے زائد بیویاں نہیں رکھ سکتا،لیکن عنوان کا حکم بالاجماع ثابت ہے اس میں صرف رافضی وغیرہ نے اختلاف کیاہے جبکہ ان کے اقوال کسی شمار میں نہیں ہیں۔ ٭ امام خازن رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وأجمعت الأمۃ علی أنہ لایجوز لأحد ان یزید علی اربع نسوۃ‘‘۲۷؎ ’’اورامت کا اس پر اجماع ہے کہ کسی کوجائزنہیں کہ وہ چار عورتوں سے زائد رکھے۔‘‘ ٭ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
Flag Counter