رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم امت کے کسی بھی عظیم شخص کی کسی بھی بارے میں مخالف رائے سے زیادہ قابل تعظیم اور لائق اتباع ہے۔اسی بنا پر حضرات صحابہ اور ان کے بعد والے لوگوں نے سنت صحیحہ کے ہر مخالف کا رد کیا اور بسااوقات انہوں نے ردّ میں سخت انداز بھی اختیار کیا۔ان کی یہ سختی ایسے شخص سے بغض کی بنا پر نہ تھی،بلکہ وہ تو ان کی نگاہوں میں محبوب تھا،اس کے لیے ان کے دل میں تعظیم تھی،لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں اور ان کا حکم مخلوق میں سے ہر کسی کے حکم سے بلند و بالا ہے۔پس جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے ساتھ کسی اور کا حکم ٹکرائے،تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہی ترجیح کا زیادہ مستحق اور پیروی کے زیادہ لائق ہے۔مخالف رائے والے کا احترام اس بات کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے گا،اگرچہ وہ مغفور لہ [1] بھی کیوں نہ ہو،بلکہ اپنی رائے کے برعکس رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم واضح ہونے پر وہ اپنی رائے کو ترک کرنا ناپسند نہیں کرے گا۔‘‘
۳: شیخ ابن باز کا قول:
اس سلسلے میں شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز بیان کرتے ہیں:
إِنَّ الْوَاجِبَ عَلَی الدَّاعِیَۃِ الْإِسْلَامِي أَنْ یَدْعُوَ إِلَی الْإِسْلَامِ کُلِّہِ،وَلَا یُفَرِّقَ بَیْنَ النَّاسِ،وَأَنْ لَا یَکُوْنَ مُتَعَصِّبًا لِمَذْھَبٍ دُوْنَ مَذْھَبٍ،أَوْ لِقَبِیْلَۃٍ دُوْنَ قَبِیْلَۃٍ،أَوْ لِشَیْخِہِ أَوْ رَئِیْسِہِ أَوْ غَیْرِ ذٰلِکَ،بَلِ الْوَاجِبُ أَنْ یَکُوْنَ ھَدَفُہُ إِثْبَاتَ الْحَقِّ وَإِیْضَاحَہُ،وَاسْتِقَامَۃَ النَّاسِ عَلَیْہِ،وَإِنْ خَالَفَ رَأْيَ
|