رَسُوْلِ اللّٰہِ صلى اللّٰه عليه وسلم،وَ قِدْمٍ فِيْ الْإِسْلَامِ،مَا قَدْ عَلِمْتَ،ثُمَّ وُلِیْتَ فَعَدَلْتَ،ثُمَّ شَہَادَۃٍ۔‘‘
[’’اے امیر المؤمنین! اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی بشارت سے خوش/ شاداں و فرحان ہو جائیے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت پانے،اسلام لانے میں سبقت حاصل کرنے کی وجہ سے،جو آپ جانتے ہیں۔پھر آپ کو والی/ حاکم بنایا گیا،تو آپ نے عدل کیا،پھر(اب آپ)شہادت(کا اعزاز حاصل کر رہے ہیں)۔‘‘
انہوں نے(جواب میں)فرمایا:
’’وَدِدْتُّ أَنَّ ذٰلِکَ کَفَافٌ،لَا عَلَيَّ،وَ لَا لِيْ۔‘‘
[’’میں پسند کرتا ہوں،کہ بلاشبہ وہ برابر برابر ہو جائے،میرے ذمے کچھ نہ ہو اور میرے لیے بھی کچھ نہ ہو۔‘‘]
’’فَلَمَّا أَدْبَرَ،فَإِذَا إِزَارُہٗ یَمَسُّ الْأَرْضَ،فَقَالَ:’’رُدُّوْا عَلَيَّ الْغُلَامَ!‘‘
[’’پس جب وہ(نوجوان)پلٹا،تو(حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا،کہ)اس کی نیچے والی چدّر زمین کو چھو رہی ہے،تو انہوں نے فرمایا:
’’نوجوان کو میرے پاس لوٹاؤ!‘‘
قَالَ:’’یَا ابْنَ أَخِيْ! اِرْفَعْ ثَوْبَکَ فَإِنَّہٗ أَبْقٰی لِثَوْبِکَ،وَ أَتْقٰی لِرَبِّکَ۔‘‘[1]
(نوجوان کو ان کے روبرو لوٹایا گیا تو،)انہوں نے فرمایا:
|