Maktaba Wahhabi

78 - 191
[’’سو اللہ تعالیٰ کی قسم! اُن کے بعد(یعنی آئندہ)میں کسی کا تزکیہ نہیں کروں گی(یعنی کسی کے بھی بارے میں ایسی گواہی نہ دوں گی)۔‘‘] اس حدیث شریف میں یہ بات واضح ہے،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھی کی وفات پر غم و اندوہ کے باوجود،ام العلاء رضی اللہ عنہا کا احتساب کیا اور انہیں آگاہ فرمایا،کہ کسی کے بارے میں بھی [اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند مقام پانے کی] قطعی طور پر بات کہنا درست نہیں۔امام مہلب لکھتے ہیں: ’’ام العلاء رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے،کہ بلاشبہ کہ کسی مسلمان کے متعلق نہ تو جنت(پانے)اور نہ ہی دوزخ(میں جانے)کی بات قطعی طور پر کہی جا سکتی ہے۔‘‘[1] پانچ دیگر فوائد: ۱۔ ہجرت کرنے والوں کی اسلامی معاشرے میں حیثیت و اہمیت ۲۔ داعی کی لوگوں کے غم میں شرکت ۳۔ اسلامی معاشرے میں اسلامی ریاست میں معاملات کی تنظیم محکم ۴۔ احتساب کی بنا ذہن میں آنے والی متوقع غلط فہمی کا ازالہ ۵۔ داعی بات پر عمل کرنے کے لیے مخاطب کا اپنے عزم کا اظہار و اعلان ب:حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی سیرتوں سے مثالیں ۱۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت صدیق رضی اللہ عنہ کا دعوت و احتساب کا اہتمام: امتِ اسلامیہ پر آنے والے مصائب میں سے سب سے بڑی مصیبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شدید ترین محبت اور سب سے زیادہ تعلق رکھنے والے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس انتہائی بڑے حادثہ کے موقع پر بھی
Flag Counter