انہوں نے جواب دیا:
’’مَا سَنَّ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلى اللّٰه عليه وسلم أَنْ نُؤَخِّرَ الْأَعْدَآئَ عِنْدَ اللِّقَآئِ أَکْثَرَ مِنْ ثَلَاثٍ۔فَانْظُرْ فِيْ أَمْرِکَ وَ أَمْرِہِمْ،وَ اخْتَرْ وَاحِدَۃً مِنْ ثَلَاثٍ بَعْدَ الْأَجَلِ۔‘‘
[’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے دستور/ طریقہ /سنت یہی بیان فرمایا ہے،کہ دشمنوں سے آمنا سامنا/ مڈبھیڑ ہونے پر تین دن سے زیادہ مہلت نہ دیں۔سو تم اپنے اور اُن(یعنی ایرانی قوم)کے معاملے میں غور و خوض کر لیجیے او مقررہ وقت گزرنے پر تین(باتوں)میں سے ایک چن لیجیے۔‘‘]
’’أَسَیِّدُہُمْ أَنْتَ؟‘‘
[’’کیا تم ان کے سردار ہو؟‘‘]
انہوں نے جواب دیا:
’’لَا،وَ لٰکِنَّ الْمُسْلِمُوْنَ کَالْجَسَدِ الْوَاحِدِ یُجِیْرُ أَدْنَاہُمْ عَلٰی أَعْلَاہُمْ۔‘‘
[’’نہیں،لیکن سارے مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں،اُن کا سب سے ہلکے درجے کا شخص سب سے بلند و بالا شخص/ ادنیٰ اعلیٰ پر پناہ دیتا ہے۔(یعنی اس کی جانب سے دئیے ہوئے امان کا تمام اہلِ اسلام احترام کرتے ہیں)۔‘‘]
رستم اپنی قوم کے سرداروں/ کی قیادت کے ساتھ(غور فکر کی خاطر)بیٹھا،تو اُس نے کہا:
’’ہَلْ رَأَیْتُمْ قَطُّ أَعَزَّ وَ أَرْجَحَ مِنْ کَلَامِ ہٰذَا الرَّجُلِ؟‘‘
[’’کیا تم نے کبھی بھی اس شخص کی گفتگو سے زیادہ باوقار اور زور دار گفتگو دیکھی ہے؟‘‘]
|