اس کی طرف سے مستحقین کو ہر روز گندم کا ایک مد کھلائے۔‘‘ (السّنن الکبرٰی للنّسائي : 2918، وسندہٗ صحیحٌٌ) اس پر اجماع ہے کہ کوئی کسی کی طرف سے نماز نہیں پڑھ سکتا۔ علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ (۴۶۳ھ)لکھتے ہیں : ’’مسلمانوں کا اجماع ہے کہ کوئی کسی زندہ یا مردہ کی طرف سے نماز نہیں پڑھ سکتا، وہ نماز فرض ہو، سنت ہو یا نفل۔‘‘ (الاستذکار : 167/10، 66/12) علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ (۸۵۵ھ) لکھتے ہیں : قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّہٗ لَا یُصَلِّي أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ ۔ ’’مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ کوئی کسی کی طرف سے نماز نہیں پڑھ سکتا۔‘‘ (عمدۃ القاري : 9/125) فائدہ : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے ہے: أَمَرَ ابْنُ عُمَرَ امْرَأَۃً، جَعَلَتْ أُمُّہَا عَلٰی نَفْسِہَا صَلَاۃً بِقُبَائٍ فَقَالَ : صَلِّي عَنْہَا ۔ ’’ایک خاتون نے نذر مانی تھی کہ قبا میں نماز پڑھیں گی، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کی بیٹی کو حکم دیا کہ وہ اپنی ماں کی طرف سے نماز پڑھے۔‘‘ (صحیح البخاري، قبل الحدیث : 6698) اس کی سند نہیں مل سکی۔ دین باسند صحیح روایات کا نام ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کا تعلق نذر سے ہے، عام نماز سے نہیں ۔ |