اس کی امام ابن حبان رحمہ اللہ ( الثقات:716)کے علاوہ کسی نے توثیق نہیں کی۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہٰذَا الْحَدْیْثُ بِأَيِّ إِسْنَادٍ کَانَ، فَہُوَ مَنْکَرٌ ۔ ’’یہ حدیث جس سند سے بھی آئی ہے، منکر ہے۔‘‘ (الکامل في ضعفاء الرّجال : 3/29) ’’ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔‘‘ (جامع الأحادیث للسّیوطي : 7174) امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : إِبْرَاہِیْمُ وَأَبُوْہُ لَیْسَا بِمَشْہُوْرِیْنَ بِنَقْلِ الْحَدِیْثِ، وَالْحَدِیْثُ غَیْرُ مَحْفُوْظٍ ۔ ’’ابراہیم اور اس کا باپ دونوں نقل حدیث میں معروف نہیں ہیں ، چنانچہ یہ حدیث غیر محفوظ ہے۔‘‘ (الضّعفاء الکبیر : 551) ان ائمہ کی تصریحات سے ثابت ہوا کہ یہ روایت ثابت نہیں ، لہٰذا اس کی بنیاد پر میت کی طرف سے نماز پڑھنے کا ثبوت فراہم کرنا درست نہ ہوا۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : لَا یُصَلِّي أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ، وَّلَا یَصُومُ أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ وَلٰکِنْ یُطْعِمُ عَنْہُ مَکَانَ کُلِّ یَوْمٍ مُدًّا مِّنْ حِنْطَۃٍ ۔ ’’کوئی کسی کی طرف سے نماز پڑھے، نہ روزہ رکھے، بلکہ (روزے کی جگہ) |