نہیں اُٹھا سکتا۔ تو چونکہ اس دن نکیرین نے ان کو عروس کہا، اس لیے وہ دن روز عرس کہلایا۔ یا اس لیے کہ وہ جمالِ مصطفٰے کے دیکھنے کا دن ہے کہ نکیرین دکھا کر پوچھتے ہیں کہ تو ان کو کیا کہتا تھا اور وہ تو خلقت کے دولہا ہیں ۔ تمام عالم ان ہی کے دم کی بہار ہے اور وصالِ محبوب کا دن عرس کا دن ہے، لہٰذا یہ دن عرس کہلایا یا عرس کی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ ہر سال تاریخ وفات پر قبر کی زیارت کرنا اور قرآن خوانی و صدقات کا ثواب پہنچانا۔‘‘ (جاء الحق از نعیمی، جلد 1 ص 322-321) سوال یہ ہے کہ آیا اس حدیث کا مفہوم خود شارع نے سمجھایا ہے یا نہیں ؟ صحابہ کرام، تابعین عظام، تبع تابعین اور ائمہ دین نے اس کا مطلب سمجھا ہے یا نہیں ؟ اگر جواب ہاں میں ہے، تو خیر القرون میں ایک عرس کی مثال کیوں نہیں ملتی ۔ نیز یہ الفاظ تو ہر مؤمن کو کہے جاتے ہیں ، پھر ہر مؤمن کی قبر پر عرس کیوں نہیں ؟ پھرکتنے لوگ ہیں جن کا مؤحد ومتقی مؤمن ہونا ثابت نہیں ، بلکہ ان کی تاریخ وفات بھی معتبر ذرائع سے معلوم نہیں ، لیکن وہاں بھی میلے لگتے ہیں ۔ کتنی ہی جعلی قبریں ہیں ، جن میں گدھے اور دوسرے جانور دفن ہیں اور انہیں بزرگانِ دین کا نام دے کر عرس منعقد کیے جا رہے ہیں ، رہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قبر میں حاضر ہونا تو یہ قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ۔ عرس کے جواز پر پیش کئے جانے والے دلائل کاجائز ہ ملاحظہ ہو۔ 1.إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَأْتِي قُبُوْرَ الشُّہَدَائِ بِأُحُدٍ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ حَوْلٍ ۔ |