کے رسول! میں مسلمان ہوں ۔ مجھے کوئی ایسی چیز دکھائیں ، جس سے میرا ایمان بڑھ جائے۔ فرمایا : کیا چاہتے ہو؟ کہنے لگا : آپ اس درخت کو بلائیں ، وہ آپ کے پاس آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت کو بلایا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور سلام کہا، آپ نے اسے واپس اپنی جگہ جانے کا کہا، تو چلا گیا، تب اس دیہاتی نے کہا : اِئْذَنْ لِي أَنْ أُقَبِّلَ رَأْسَکَ وَرِجْلَیْکَ ۔ ’’مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کا سر اور پاؤں چوموں ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دی، تو اس نے ایسا کر لیا۔ (مسند الدّارمي : 1472، القبل لابن الأعرابي : 42، تقبیل الید لابن المقري : 5، المستدرک للحاکم : 4/172، دلائل النبوّۃ لأبي نعیم الأصبہاني: 291) ضعیف ہے۔ صالح بن حیان قرشی جمہور محدثین کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’صحیح الاسناد‘‘کہا، تو حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا : بَلْ وَاہٍ، وَفِي إِسْنَادِہٖ صَالِحُ بْنُ حَیَّانَ مَتْرُوکٌ ۔ ’’ بلکہ یہ روایت ضعیف ہے، اس کی سند میں صالح بن حیان متروک ہے۔‘‘ صالح بن حیان کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’ضعیف‘‘قرار دیا ہے۔ (تقریب التّہذیب : 2851) امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے ’’ضعیف‘‘ہی کہا ہے۔ (تاریخ ابن معین بروایۃ الدّارمي، ص 134، ت : 434) امام نسائی رحمہ اللہ نے ’’غیر ثقہ‘‘ کہا ہے۔ (الضّعفاء والمتروکون : 295) امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : |